صحیح بخاری

فضیلتوں کے بیان میں

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الحجرات میں ) ارشاد اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد آدم اور ایک ہی عورت حواء سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنا دیا ہے تاکہ تم بطور رشتہ داری ایک دوسرے کو پہچان سکو ، بیشک تم سب میں سے اللہ کے نزدیک معزز تر وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو

وَقَوْلُهُ: ‏‏‏‏وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا‏‏‏‏. وَمَا يُنْهَى عَنْ دَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ الشُّعُوبُ النَّسَبُ الْبَعِيدُ وَالْقَبَائِلُ دُونَ ذَلِكَ.

اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ نساء میں ارشاد «واتقوا الله الذي تساءلون به والأرحام إن الله كان عليكم رقيبا‏» اور اللہ سے ڈرو جس کا نام لے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور ناتا توڑنے سے ڈرو۔ بیشک اللہ تمہارے اوپر نگران ہے، اور جاہلیت کی طرح باپ دادوں پر فخر کرنا منع ہے، اس کا بیان «شعوب» ، «شعب» کی جمع ہے جس سے اوپر کا خاندان مراد ہے اور «قبائل» اس سے اتر کر نیچے کا یعنی اس کی شاخ مراد ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الحجرات میں ) ارشاد اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد آدم اور ایک ہی عورت حواء سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنا دیا ہے تاکہ تم بطور رشتہ داری ایک دوسرے کو پہچان سکو ، بیشک تم سب میں سے اللہ کے نزدیک معزز تر وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو

حد یث نمبر - 3489

حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ الْكَاهِلِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَصِينٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا"وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا سورة الحجرات آية 13، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الشُّعُوبُ:‏‏‏‏ الْقَبَائِلُ الْعِظَامُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْقَبَائِلُ:‏‏‏‏ الْبُطُونُ".

ہم سے خالد بن یزید الکاہلی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر بن عیاش نے بیان کیا، ان سے ابوحصین (عثمان بن عاصم) نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «وجعلناكم شعوبا وقبائل‏» کے متعلق فرمایا کہ «شعوب» بڑے قبیلوں کے معنی میں ہے اور «قبائل» سے کسی بڑے قبیلے کی شاخیں مراد ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الحجرات میں ) ارشاد اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد آدم اور ایک ہی عورت حواء سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنا دیا ہے تاکہ تم بطور رشتہ داری ایک دوسرے کو پہچان سکو ، بیشک تم سب میں سے اللہ کے نزدیک معزز تر وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو

حد یث نمبر - 3490

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏"مَنْ أَكْرَمُ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَتْقَاهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَيُوسُفُ نَبِيُّ اللَّهِ".

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! سب سے زیادہ شریف کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارا سوال اس کے بارے میں نہیں ہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر (نسب کی رو سے) اللہ کے نبی یوسف علیہ السلام سب سے زیادہ شریف تھے۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الحجرات میں ) ارشاد اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد آدم اور ایک ہی عورت حواء سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنا دیا ہے تاکہ تم بطور رشتہ داری ایک دوسرے کو پہچان سکو ، بیشک تم سب میں سے اللہ کے نزدیک معزز تر وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو

حد یث نمبر - 3491

حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا كُلَيْبُ بْنُ وَائِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَتْنِي رَبِيبَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْنَبُ أَبْنَة أَبِي سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لَهَا:‏‏‏‏ "أَرَأَيْتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكَانَ مِنْ مُضَرَ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَمِمَّنْ كَانَ إِلَّا مِنْ مُضَرَ مِنْ بَنِي النَّضْرِ بْنِ كِنَانَةَ".

ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے کلیب بن وائل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر پرورش رہ چکی تھیں، کلیب نے بیان کیا کہ ہمیں نے زینب سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق قبیلہ مضر سے تھا؟ انہوں نے کہا پھر کس قبیلہ سے تھا؟ یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ مضر کی شاخ بنی نضر بن کنانہ کی اولاد میں سے تھے۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الحجرات میں ) ارشاد اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد آدم اور ایک ہی عورت حواء سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنا دیا ہے تاکہ تم بطور رشتہ داری ایک دوسرے کو پہچان سکو ، بیشک تم سب میں سے اللہ کے نزدیک معزز تر وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو

حد یث نمبر - 3492

حَدَّثَنَا مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا كُلَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَتْنِي رَبِيبَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَظُنُّهَا زَيْنَبَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالمُقيَّرِ وَالْمُزَفَّتِ، ‏‏‏‏‏‏وَقُلْتُ لَهَا:‏‏‏‏ أَخْبِرِينِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ كَانَ مِنْ مُضَرَ كَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَمِمَّنْ كَانَ إِلَّا مِنْ مُضَرَ كَانَ مِنْ وَلَدِ النَّضْرِ بْنِ كِنَانَةَ".

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے، کہا ہم سے کلیب نے بیان کیا، اور ان سے ربیبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے، میرا خیال ہے کہ ان سے مراد زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دباء، حنتم، نقیر اور مزفت کے استعمال سے منع فرمایا تھا اور میں نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ مجھے بتائیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق کس قبیلہ سے تھا؟ کیا واقعی آپ کا تعلق قبیلہ مضر سے تھا؟ انہوں نے کہا پھر اور کس سے ہو سکتا ہے یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق اسی قبیلہ سے تھا۔ آپ نضر بنی بن کنانہ کی اولاد میں سے تھے۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الحجرات میں ) ارشاد اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد آدم اور ایک ہی عورت حواء سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنا دیا ہے تاکہ تم بطور رشتہ داری ایک دوسرے کو پہچان سکو ، بیشک تم سب میں سے اللہ کے نزدیک معزز تر وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو

حد یث نمبر - 3493

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَارَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "تَجِدُونَ النَّاسَ مَعَادِنَ خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا فَقِهُوا وَتَجِدُونَ خَيْرَ النَّاسِ فِي هَذَا الشَّأْنِ أَشَدَّهُمْ لَهُ كَرَاهِيَةً".

ہم سے اسحٰق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم کو جریر نے خبر دی، انہیں عمارہ نے، انہیں ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم انسانوں کو کان کی طرح پاؤ گے (بھلائی اور برائی میں) جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں بہتر اور اچھی صفات کے مالک تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی بہتر اور اچھی صفات والے ہیں بشرطیکہ وہ دین کا علم بھی حاصل کریں اور حکومت اور سرداری کے لائق اس کو پاؤ گے جو حکومت اور سرداری کو بہت ناپسند کرتا ہو۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الحجرات میں ) ارشاد اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد آدم اور ایک ہی عورت حواء سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنا دیا ہے تاکہ تم بطور رشتہ داری ایک دوسرے کو پہچان سکو ، بیشک تم سب میں سے اللہ کے نزدیک معزز تر وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو

حد یث نمبر - 3494

وَتَجِدُونَ شَرَّ النَّاسِ ذَا الْوَجْهَيْنِ، الَّذِي يَأْتِي هَؤُلاَءِ بِوَجْهٍ، وَيَأْتِي هَؤُلاَءِ بِوَجْهٍ».

اور آدمیوں میں سب سے برا اس کو پاؤ گے جو دورخہ (دوغلا) ہو۔ ان لوگوں میں ایک منہ لے کر آئے، دوسروں میں دوسرا منہ۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الحجرات میں ) ارشاد اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد آدم اور ایک ہی عورت حواء سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنا دیا ہے تاکہ تم بطور رشتہ داری ایک دوسرے کو پہچان سکو ، بیشک تم سب میں سے اللہ کے نزدیک معزز تر وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو

حد یث نمبر - 3495

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْرَجِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "النَّاسُ تَبَعٌ لِقُرَيْشٍ فِي هَذَا الشَّأْنِ مُسْلِمُهُمْ تَبَعٌ لِمُسْلِمِهِمْ وَكَافِرُهُمْ تَبَعٌ لِكَافِرِهِمْ.

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے مغیرہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس (خلافت کے) معاملے میں لوگ قریش کے تابع ہیں، عام مسلمان قریشی مسلمانوں کے تابع ہیں جس طرح ان کے عام کفار قریشی کفار کے تابع رہتے چلے آئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الحجرات میں ) ارشاد اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد آدم اور ایک ہی عورت حواء سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنا دیا ہے تاکہ تم بطور رشتہ داری ایک دوسرے کو پہچان سکو ، بیشک تم سب میں سے اللہ کے نزدیک معزز تر وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو

حد یث نمبر - 3496

وَالنَّاسُ مَعَادِنُ خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقِهُوا تَجِدُونَ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ أَشَدَّ النَّاسِ كَرَاهِيَةً لِهَذَا الشَّأْنِ حَتَّى يَقَعَ فِيهِ".

اور انسانوں کی مثال کان کی طرح ہے، جو لوگ جاہلیت کے دور میں شریف تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی شریف ہیں جب کہ انہوں نے دین کی سمجھ بھی حاصل کی ہو تم دیکھو گے کہ بہترین اور لائق وہی ثابت ہوں گے جو خلافت و امارت کے عہدے کو بہت زیادہ ناپسند کرتے رہے ہوں، یہاں تک کہ وہ اس میں گرفتار ہو جائیں۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الحجرات میں ) ارشاد اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد آدم اور ایک ہی عورت حواء سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنا دیا ہے تاکہ تم بطور رشتہ داری ایک دوسرے کو پہچان سکو ، بیشک تم سب میں سے اللہ کے نزدیک معزز تر وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو

حد یث نمبر - 3497

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَاوُسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى سورة الشورى آية 23، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ:‏‏‏‏ قُرْبَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ"إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ بَطْنٌ مِنْ قُرَيْشٍ إِلَّا وَلَهُ فِيهِ قَرَابَةٌ فَنَزَلَتْ عَلَيْهِ إِلَّا أَنْ تَصِلُوا قَرَابَةً بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے عبدالملک نے بیان کیا، ان سے طاؤس نے کہ ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا «إلا المودة في القربى‏» کے متعلق (طاؤس نے) بیان کیا کہ قریش کی کوئی شاخ ایسی نہیں تھی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت نہ رہی ہو اور اسی وجہ سے یہ آیت نازل ہوئی تھی کہ میرا مطالبہ صرف یہ ہے کہ تم لوگ میری اور اپنی قرابت داری کا لحاظ کرو۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الحجرات میں ) ارشاد اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد آدم اور ایک ہی عورت حواء سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنا دیا ہے تاکہ تم بطور رشتہ داری ایک دوسرے کو پہچان سکو ، بیشک تم سب میں سے اللہ کے نزدیک معزز تر وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو

حد یث نمبر - 3498

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَيْسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "مِنْ هَا هُنَا جَاءَتِ الْفِتَنُ نَحْوَ الْمَشْرِقِ وَالْجَفَاءُ وَغِلَظُ الْقُلُوبِ فِي الْفَدَّادِينَ أَهْلِ الْوَبَرِ عِنْدَ أُصُولِ أَذْنَابِ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ فِي رَبِيعَةَ وَمُضَرَ".

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس نے اور ان سے ابومسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرف سے فتنے اٹھیں گے یعنی مشرق سے اور بے وفائی اور سخت دلی ان لوگوں میں ہے جو اونٹوں اور گایوں کی دم کے پاس چلاتے رہتے ہیں یعنی ربیعہ اور مضر کے لوگوں میں۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الحجرات میں ) ارشاد اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد آدم اور ایک ہی عورت حواء سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنا دیا ہے تاکہ تم بطور رشتہ داری ایک دوسرے کو پہچان سکو ، بیشک تم سب میں سے اللہ کے نزدیک معزز تر وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو

حد یث نمبر - 3499

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "الْفَخْرُ وَالْخُيَلَاءُ فِي الْفَدَّادِينَ أَهْلِ الْوَبَرِ وَالسَّكِينَةُ فِي أَهْلِ الْغَنَمِ وَالْإِيمَانُ يَمَانٍ وَالْحِكْمَةُ يَمَانِيَةٌ، ‏‏‏‏‏‏سُمِّيَتْ الْيَمَنَ لِأَنَّهَا عَنْ يَمِينِ الْكَعْبَةِ وَالشَّأْمَ لِأَنَّهَا عَنْ يَسَارِ الْكَعْبَةِ وَالْمَشْأَمَةُ الْمَيْسَرَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْيَدُ الْيُسْرَى الشُّؤْمَى، ‏‏‏‏‏‏وَالْجَانِبُ الْأَيْسَرُ الْأَشْأَمُ".

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ فخر اور تکبر ان چیخنے اور شور مچانے والے اونٹ والوں میں ہے اور بکری چرانے والوں میں نرم دلی اور ملائمت ہوتی ہے اور ایمان تو یمن میں ہے حکمت (حدیث) بھی یمنی ہے، ابوعبداللہ یعنی (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ یمن کا نام یمن اس لیے ہوا کہ یہ کعبہ کے دائیں جانب ہے اور شام کو شام اس لیے کہتے ہیں کہ یہ کعبہ کے بائیں جانب ہے۔ «المشأمة» بائیں جانب کو کہتے ہیں۔ بائیں ہاتھ کو «الشؤمى» کہتے ہیں اور بائیں جانب کو «الأشأم‏.» کہتے ہیں۔

قریش کی فضیلت کا بیان

حد یث نمبر - 3500

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ يُحَدِّثُ أَنَّهُ بَلَغَ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ عِنْدَهُ فِي وَفْدٍ مِنْ قُرَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَيَكُونُ مَلِكٌ مِنْ قَحْطَانَ فَغَضِبَ مُعَاوِيَةُ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ رِجَالًا مِنْكُمْ يَتَحَدَّثُونَ أَحَادِيثَ لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا تُؤْثَرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُولَئِكَ جُهَّالُكُمْ فَإِيَّاكُمْ وَالْأَمَانِيَّ الَّتِي تُضِلُّ أَهْلَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ فِي قُرَيْشٍ لَا يُعَادِيهِمْ أَحَدٌ إِلَّا كَبَّهُ اللَّهُ عَلَى وَجْهِهِ مَا أَقَامُوا الدِّينَ".

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ محمد بن جبیر بن مطعم بیان کرتے تھے کہمعاویہ رضی اللہ عنہ تک یہ بات پہنچی جب وہ قریش کی ایک جماعت میں تھے کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ عنقریب (قرب قیامت میں) بنی قحطان سے ایک حکمراں اٹھے گا۔ یہ سن کر معاویہ رضی اللہ عنہ غصہ ہو گئے، پھر آپ خطبہ دینے اٹھے اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق حمد و ثنا کے بعد فرمایا: لوگو! مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگ ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جو نہ تو قرآن مجید میں موجود ہیں اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ دیکھو! تم میں سب سے جاہل یہی لوگ ہیں۔ ان سے اور ان کے خیالات سے بچتے رہو جن خیالات نے ان کو گمراہ کر دیا ہے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے کہ یہ خلافت قریش میں رہے گی اور جو بھی ان سے دشمنی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو سرنگوں اور اوندھا کر دے گا جب تک وہ(قریش) دین کو قائم رکھیں گے۔

قریش کی فضیلت کا بیان

حد یث نمبر - 3501

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا يَزَالُ هَذَا الْأَمْرُ فِي قُرَيْشٍ مَا بَقِيَ مِنْهُمُ اثْنَانِ".

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ خلافت اس وقت تک قریش کے ہاتھوں میں باقی رہے گی جب تک کہ ان میں دو آدمی بھی باقی رہیں۔

قریش کی فضیلت کا بیان

حد یث نمبر - 3502

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقَيْلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَشَيْتُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَعْطَيْتَ بَنِي الْمُطَّلِبِ وَتَرَكْتَنَا وَإِنَّمَا نَحْنُ وَهُمْ مِنْكَ بِمَنْزِلَةٍ وَاحِدَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّمَا بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَيْءٌ وَاحِدٌ"

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابن مسیب نے اور ان سے جبیر بن مطعم نے بیان کیا کہ میں اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما دونوں مل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بنو مطلب کو تو آپ نے عطا فرمایا اور ہمیں (بنی امیہ کو) نظر انداز کر دیا حالانکہ آپ کے لیے ہم اور وہ ایک ہی درجے کے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (یہ صحیح ہے) مگر بنو ہاشم اور بنو مطلب ایک ہی ہیں۔

قریش کی فضیلت کا بیان

حد یث نمبر - 3503

وَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي أَبُو الْأَسْوَدِ مُحَمَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَهَبَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ مَعَ أُنَاسٍ مِنْ بَنِي زُهْرَةَ إِلَى عَائِشَةَ وَكَانَتْ أَرَقَّ شَيْءٍ عَلَيْهِمْ لِقَرَابَتِهِمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے ابوالاسود محمد نے بیان کیا اور ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بنی زہرہ کے چند لوگوں کے ساتھ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بنی زہرہ کے ساتھ بہت اچھی طرح پیش آتی تھیں کیونکہ ان لوگوں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت تھی۔

قریش کی فضیلت کا بیان

حد یث نمبر - 3504

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ح يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ هُرْمُزَ الْأَعْرَجُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "قُرَيْشٌ وَالْأَنْصَارُ وَجُهَيْنَةُ وَمُزَيْنَةُ وَأَسْلَمُ وَأَشْجَعُ وَغِفَارُ مَوَالِيَّ لَيْسَ لَهُمْ مَوْلًى دُونَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ".

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا اور ان سے سعد بن ابراہیم نے (دوسری سند) یعقوب بن ابراہیم نے کہا کہ ہمارے والد نے ہم سے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے، کہا مجھ سے عبدالرحمٰن بن ہرمزالاعرج نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قریش، انصار، جہینہ، مزینہ، اسلم، اشجع اور غفار ان سب قبیلوں کے لوگ میرے خیرخواہ ہیں اور ان کا بھی اللہ اور اس کے رسول کے سوا کوئی حمایتی نہیں ہے۔

قریش کی فضیلت کا بیان

حد یث نمبر - 3505

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏قَال:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو الْأَسْوَدِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ أَحَبَّ الْبَشَرِ إِلَى عَائِشَةَ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَكَانَ أَبَرَّ النَّاسِ بِهَا وَكَانَتْ لَا تُمْسِكُ شَيْئًا مِمَّا جَاءَهَا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ إِلَّا تَصَدَّقَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ:‏‏‏‏ يَنْبَغِي أَنْ يُؤْخَذَ عَلَى يَدَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ أَيُؤْخَذُ عَلَى يَدَيَّ عَلَيَّ نَذْرٌ إِنْ كَلَّمْتُهُ فَاسْتَشْفَعَ إِلَيْهَا بِرِجَالٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَبِأَخْوَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً فَامْتَنَعَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ الزُّهْرِيُّونَ أَخْوَالُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ إِذَا اسْتَأْذَنَّا فَاقْتَحِمْ الْحِجَابَ فَفَعَلَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا بِعَشْرِ رِقَابٍ فَأَعْتَقَتْهُمْ ثُمَّ لَمْ تَزَلْ تُعْتِقُهُمْ حَتَّى بَلَغَتْ أَرْبَعِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ وَدِدْتُ أَنِّي جَعَلْتُ حِينَ حَلَفْتُ عَمَلًا أَعْمَلُهُ فَأَفْرُغُ مِنْهُ".

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، کہا کہ مجھ سے ابوالاسود نے، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے عائشہ رضی اللہ عنہا کو سب سے زیادہ محبت تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عادت تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رزق بھی ان کو ملتا وہ اسے صدقہ کر دیا کرتی تھیں۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے (کسی سے) کہا ام المؤمنین کو اس سے روکنا چاہیے (جب عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کی بات پہنچی) تو انہوں نے کہا: کیا اب میرے ہاتھوں کو روکا جائے گا، اب اگر میں نے عبداللہ سے بات کی تو مجھ پر نذر واجب ہے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے (عائشہ رضی اللہ عنہا کو راضی کرنے کے لیے) قریش کے چند لوگوں اور خاص طور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نانہالی رشتہ داروں (بنو زہرہ) کو ان کی خدمت میں معافی کی سفارش کے لیے بھیجا لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا پھر بھی نہ مانیں۔ اس پر بنو زہرہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں ہوتے تھے اور ان میں عبدالرحمٰن بن اسود بن عبدیغوث اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ جب ہم ان کی اجازت سے وہاں جا بیٹھیں تو تم ایک دفعہ آن کر پردہ میں گھس جاؤ۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا (جب عائشہ رضی اللہ عنہا خوش ہو گئیں تو) انہوں نے ان کی خدمت میں دس غلام (آزاد کرانے کے لیے بطور کفارہ قسم) بھیجے اور ام المؤمنین نے انہیں آزاد کر دیا۔ پھر آپ برابر غلام آزاد کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ چالیس غلام آزاد کر دیئے پھر انہوں نے کہا کاش میں نے جس وقت قسم کھائی تھی (منت مانی تھی) تو میں کوئی خاص چیز بیان کر دیتی جس کو کر کے میں فارغ ہو جاتی۔

قرآن کا قریش کی زبان میں نازل ہونا

حد یث نمبر - 3506

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ :‏‏‏‏ "أَنَّ عُثْمَانَ دَعَا زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ فَنَسَخُوهَا فِي الْمَصَاحِفِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَعُثْمَانُ "لِلرَّهْطِ الْقُرَشِيِّينَ الثَّلَاثَةِ إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِي شَيْءٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَاكْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ فَفَعَلُوا ذَلِكَ".

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو بلایا(اور ان کو قرآن مجید کی کتابت پر مقرر فرمایا، چنانچہ ان حضرات نے) قرآن مجید کو کئی مصحفوں میں نقل فرمایا اور عثمان رضی اللہ عنہ نے(ان چاروں میں سے) تین قریشی صحابہ سے فرمایا تھا کہ جب آپ لوگوں کا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے (جو مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے) قرآن کے کسی مقام پر (اس کے کسی محاورے میں) اختلاف ہو جائے تو اس کو قریش کے محاورے کے مطابق لکھنا، کیونکہ قرآن شریف قریش کے محاورہ میں نازل ہوا ہے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔

یمن والوں کا اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں ہونا قبیلہ خزاعہ کی شاخ بنو اسلم بن افصی بن حارثہ بن عمرو بن عامر اہل یمن میں سے ہیں

حد یث نمبر - 3507

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَلَمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَوْمٍ مِنْ أَسْلَمَ يَتَنَاضَلُونَ بِالسُّوقِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "ارْمُوا بَنِي إِسْمَاعِيلَ فَإِنَّ أَبَاكُمْ كَانَ رَامِيًا وَأَنَا مَعَ بَنِي فُلَانٍ لِأَحَدِ الْفَرِيقَيْنِ فَأَمْسَكُوا بِأَيْدِيهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا لَهُمْ قَالُوا وَكَيْفَ نَرْمِي وَأَنْتَ مَعَ بَنِي فُلَانٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ارْمُوا وَأَنَا مَعَكُمْ كُلِّكُمْ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ اسلم کے صحابہ کی طرف سے گزرے جو بازار میں تیر اندازی کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اولاد اسماعیل! خوب تیر اندازی کرو کہ تمہارے باپ اسماعیل علیہ السلام بھی تیرانداز تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں فلاں جماعت کے ساتھ ہوں، یہ سن کر دوسری جماعت والوں نے ہاتھ روک لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہوئی؟ انہوں نے عرض کیا کہ جب آپ دوسرے فریق کے ساتھ ہو گئے تو پھر ہم کیسے تیر اندازی کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم تیر اندازی جاری رکھو۔ میں تم سب کے ساتھ ہوں۔

باب: ۔۔۔ 5

حد یث نمبر - 3508

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحُسَيْنِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَعْمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا الْأَسْوَدِ الدِّيلِيّ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا كَفَرَ وَمَنِ ادَّعَى قَوْمًا لَيْسَ لَهُ فِيهِمْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے حسین بن واقد نے، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے یحییٰ بن یعمر نے بیان کیا، ان سے ابوالاسود دیلی نے بیان کیا اور ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے جس شخص نے بھی جان بوجھ کر اپنے باپ کے سوا کسی اور کو اپنا باپ بنایا تو اس نے کفر کیا اور جس شخص نے بھی اپنا نسب کسی ایسی قوم سے ملایا جس سے اس کا کوئی (نسبی) تعلق نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

باب: ۔۔۔ 5

حد یث نمبر - 3509

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَرِيزٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ النَّصْرِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ وَاثِلَةَ بْنَ الْأَسْقَعِ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْفِرَى أَنْ يَدَّعِيَ الرَّجُلُ إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ أَوْ يُرِيَ عَيْنَهُ مَا لَمْ تَرَ أَوْ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ يَقُلْ".

ہم سے علی بن عیاش نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالواحد بن عبداللہ نصری نے بیان کیا، کہا کہ میں نے واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے بڑا بہتان اور سخت جھوٹ یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے سوا کسی اور کو اپنا باپ کہے یا جو چیز اس نے خواب میں نہیں دیکھی۔ اس کے دیکھنے کا دعویٰ کرے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی حدیث منسوب کرے جو آپ نے نہ فرمائی ہو۔

باب: ۔۔۔ 5

حد یث نمبر - 3510

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي جَمْرَةَ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّا مِنْ هَذَا الْحَيِّ مِنْ رَبِيعَةَ قَدْ حَالَتْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ كُفَّارُ مُضَرَ فَلَسْنَا نَخْلُصُ إِلَيْكَ إِلَّا فِي كُلِّ شَهْرٍ حَرَامٍ فَلَوْ أَمَرْتَنَا بِأَمْرٍ نَأْخُذُهُ عَنْكَ وَنُبَلِّغُهُ مَنْ وَرَاءَنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ الْإِيمَانِ بِاللَّهِ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ تُؤَدُّوا إِلَى اللَّهِ خُمْسَ مَا غَنِمْتُمْ وَأَنْهَاكُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَنْتَمِ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّقِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُزَفَّتِ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے ابوجمرہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا وہ کہتے تھے کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا تعلق قبیلہ ربیعہ سے ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان (راستے میں) کفار مضر کا قبیلہ پڑتا ہے، اس لیے ہم آپ کی خدمت اقدس میں صرف حرمت کے مہینوں میں ہی حاضر ہو سکتے ہیں۔ مناسب ہوتا اگر آپ ہمیں ایسے احکام بتلا دیتے جن پر ہم خود بھی مضبوطی سے قائم رہتے اور جو لوگ ہمارے پیچھے رہ گئے ہیں انہیں بھی بتا دیتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں، اول اللہ پر ایمان لانے کا، یعنی اس کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور نماز قائم کرنے کا اور زکوٰۃ ادا کرنے کا اور اس بات کا کہ جو کچھ بھی تمہیں مال غنیمت ملے اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کو (یعنی امام وقت کے بیت المال کو) ادا کرو اور میں تمہیں دباء، حنتم، نقیر اور مزفت (کے استعمال) سے منع کرتا ہوں۔

باب: ۔۔۔ 5

حد یث نمبر - 3511

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ أَلَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَا هُنَا يُشِيرُ إِلَى الْمَشْرِقِ مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ".

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر فرما رہے تھے آگاہ ہو جاؤ اس طرف سے فساد پھوٹے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کر کے یہ جملہ فرمایا، جدھر سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے۔

اسلم ، غفار ، مزینہ ، جہینہ اور اشجع قبیلوں کا بیان

حد یث نمبر - 3512

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "قُرَيْشٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْأَنْصَارُ، ‏‏‏‏‏‏وَجُهَيْنَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَمُزَيْنَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَسْلَمُ وَغِفَارُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَشْجَعُ مَوَالِيَّ لَيْسَ لَهُمْ مَوْلًى دُونَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ".

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قریش، انصار، جہینہ، مزینہ، اسلم، غفار اور اشجع میرے خیرخواہ ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کے سوا اور کوئی ان کا حمایتی نہیں۔

اسلم ، غفار ، مزینہ ، جہینہ اور اشجع قبیلوں کا بیان

حد یث نمبر - 3513

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ غُرَيْرٍ الزُّهْرِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا نَافِعٌ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ اللَّهِأَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "عَلَى الْمِنْبَرِ غِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا وَأَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ وَعُصَيَّةُ عَصَتِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ".

ہم سے محمد بن غریر زہری نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے صالح نے، ان سے نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر فرمایا قبیلہ غفار کی اللہ تعالیٰ نے مغفرت فرما دی اور قبیلہ اسلم کو اللہ تعالیٰ نے سلامت رکھا اور قبیلہ عصیہ نے اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔

اسلم ، غفار ، مزینہ ، جہینہ اور اشجع قبیلوں کا بیان

حد یث نمبر - 3514

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ وَغِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا".

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی، انہیں ایوب نے، انہیں محمد نے، انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ قبیلہ اسلم کو اللہ تعالیٰ نے سلامت رکھا اور قبیلہ غفار کی اللہ تعالیٰ نے مغفرت فرما دی۔

اسلم ، غفار ، مزینہ ، جہینہ اور اشجع قبیلوں کا بیان

حد یث نمبر - 3515

حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ جُهَيْنَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَمُزَيْنَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَسْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏وَغِفَارُ خَيْرًا مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبَنِي أَسَدٍ وَمِنْ بَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ غَطَفَانَ وَمِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ رَجُلٌ خَابُوا وَخَسِرُوا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ هُمْ خَيْرٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْ بَنِي أَسَدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْ بَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ غَطَفَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ".

ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عبدالملک بن عمیر نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے اور ان سے ان کے والد ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بتاؤ کیا جہینہ، مزینہ، اسلم اور غفار کے قبیلے بنی تمیم، بنی اسد، بنی عبداللہ بن غطفان اور بنی عامر بن صعصعہ کے مقابلے میں بہتر ہیں؟ ایک شخص (اقرع بن حابس) نے کہا کہ وہ تو تباہ و برباد ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں یہ چاروں قبیلے بنو تمیم، بنو اسد، بنو عبداللہ بن غطفان اور بنو عامر بن صعصعہ کے قبیلوں سے بہتر ہیں۔

اسلم ، غفار ، مزینہ ، جہینہ اور اشجع قبیلوں کا بیان

حد یث نمبر - 3516

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا بَايَعَكَ سُرَّاقُ الْحَجِيجِ مِنْ أَسْلَمَ وَغِفَارَ وَمُزَيْنَةَ وَأَحْسِبُهُ وَجُهَيْنَةَ ابْنُ أَبِي يَعْقُوبَ شَكَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ أَسْلَمُ وَغِفَارُ وَمُزَيْنَةُ وَأَحْسِبُهُ وَجُهَيْنَةُ خَيْرًا مِنْ بَنِي تَمِيمٍ وَبَنِي عَامِرٍ وَأَسَدٍ وَغَطَفَانَ خَابُوا وَخَسِرُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّهُمْ لَخَيْرٌ مِنْهُمْ".

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابی یعقوب نے بیان کیا، انہوں نے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ سے سنا، انہوں نے اپنے والد سے کہ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ سے ان لوگوں نے بیعت کی ہے کہ جو حاجیوں کا سامان چرایا کرتے تھے یعنی اسلم اور غفار اور مزینہ کے لوگ، محمد بن ابی یعقوب نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں عبدالرحمٰن نے جہینہ کا بھی ذکر کیا، شعبہ نے کہا کہ یہ شک محمد بن ابی یعقوب کو ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بتلاؤ اسلم، غفار، مزینہ، اور میں سمجھتا ہوں کہ جہینہ کو بھی کہا یہ چاروں قبیلے بنی تمیم، بنی عامر اور اسد اور غطفان سے بہتر نہیں ہیں؟ کیا یہ (مؤخرالذکر) خراب اور برباد نہیں ہوئے؟ اقرع نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ ان سے بہتر ہیں۔

اسلم ، غفار ، مزینہ ، جہینہ اور اشجع قبیلوں کا بیان

حد یث نمبر - 3516

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "أَسْلَمُ وَغِفَارُ وَشَيْءٌ مِنْ مُزَيْنَةَ وَجُهَيْنَةَ أَوْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ شَيْءٌ مِنْ جُهَيْنَةَ أَوْ مُزَيْنَةَ خَيْرٌ عِنْدَ اللَّهِ أَوْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ أَسَدٍ وَتَمِيمٍ وَهَوَازِنَ وَغَطَفَانَ".

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے محمد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قبیلہ اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ کے کچھ لوگ یا انہوں نے بیان کیا کہ مزینہ کے کچھ لوگ یا (بیان کیا کہ) جہینہ کے کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یا بیان کیا کہ قیامت کے دن قبیلہ اسد، تمیم، ہوازن اور غطفان سے بہتر ہوں گے۔

ایک مرد قحطانی کا تذکرہ

حد یث نمبر - 3517

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْغَيْثِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ رَجُلٌ مِنْ قَحْطَانَ يَسُوقُ النَّاسَ بِعَصَاهُ".

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے ثور بن زید نے، ان سے ابولغیث نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک کہ قبیلہ قحطان میں ایک ایسا شخص پیدا نہیں ہو گا جو لوگوں پر اپنی لاٹھی کے زور سے حکومت کرے گا۔

جاہلیت کی سی باتیں کرنا منع ہے

حد یث نمبر - 3518

حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ غَزَوْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ ثَابَ مَعَهُ نَاسٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ حَتَّى كَثُرُوا وَكَانَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ رَجُلٌ لَعَّابٌ فَكَسَعَ أَنْصَارِيًّا فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ غَضَبًا شَدِيدًا حَتَّى تَدَاعَوْا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ الْأَنْصَارِيُّ يَا لَلْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ الْمُهَاجِرِيُّ يَا لَلْمُهَاجِرِينَ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "مَا بَالُ دَعْوَى أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ ثُمَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا شَأْنُهُمْ فَأُخْبِرَ بِكَسْعَةِ الْمُهَاجِرِيِّ الْأَنْصَارِيَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "دَعُوهَا فَإِنَّهَا خَبِيثَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ:‏‏‏‏ أَقَدْ تَدَاعَوْا عَلَيْنَا لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ أَلَا نَقْتُلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏هَذَا الْخَبِيثَ لِعَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّهُ كَانَ يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ".

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک تھے، مہاجرین بڑی تعداد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے۔ وجہ یہ ہوئی کہ مہاجرین میں ایک صاحب تھے بڑے دل لگی کرنے والے، انہوں نے ایک انصاری کے سرین پر ضرب لگائی، انصاری بہت سخت غصہ ہوا۔ اس نے اپنی برادری والوں کو مدد کے لیے پکارا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان لوگوں نے یعنی انصاری نے کہا: اے قبائل انصار! مدد کو پہنچو! اور مہاجر نے کہا: اے مہاجرین! مدد کو پہنچو! یہ غل سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (خیمہ سے) باہر تشریف لائے اور فرمایا: کیا بات ہے؟ یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صورت حال دریافت کرنے پر مہاجر صحابی کے انصاری صحابی کو مار دینے کا واقعہ بیان کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسی جاہلیت کی ناپاک باتیں چھوڑ دو اور عبداللہ بن ابی سلول (منافق) نے کہا کہ یہ مہاجرین اب ہمارے خلاف اپنی قوم والوں کی دہائی دینے لگے۔ مدینہ پہنچ کر ہم سمجھ لیں گے، عزت دار ذلیل کو یقیناً نکال باہر کر دے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی یا رسول اللہ! ہم اس ناپاک پلید عبداللہ بن ابی کو قتل کیوں نہ کر دیں؟ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ ہونا چاہیے کہ لوگ کہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے لوگوں کو قتل کر دیا کرتے ہیں۔

جاہلیت کی سی باتیں کرنا منع ہے

حد یث نمبر - 3519

حَدَّثَنِي ثَابِتُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَسْرُوقٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ح وَعَنْ سُفْيَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زُبَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَسْرُوقٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ".

ہم سے ثابت بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے عبداللہ بن مرہ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے، اور سفیان نے زبید سے، انہوں نے ابراہیم سے، انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو (نوحہ کرتے ہوئے) اپنے رخسار پیٹے، گریبان پھاڑ ڈالے، اور جاہلیت کی پکار پکارے۔

قبیلہ خزاعہ کا بیان

حد یث نمبر - 3520

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَصِينٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "عَمْرُو بْنُ لُحَيِّ بْنِ قَمَعَةَ بْنِ خِنْدِفَ أَبُو خُزَاعَةَ".

مجھ سے اسحٰق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا، کہا ہم کو اسرائیل نے خبر دی، انہیں ابوحصین نے، انہیں ابوصالح نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمرو بن لحیی بن قمعہ بن خندف قبیلہ خزاعہ کا باپ تھا۔

قبیلہ خزاعہ کا بیان

حد یث نمبر - 3521

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الْبَحِيرَةُ:‏‏‏‏ الَّتِي يُمْنَعُ دَرُّهَا لِلطَّوَاغِيتِ وَلَا يَحْلُبُهَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏وَالسَّائِبَةُ:‏‏‏‏ الَّتِي كَانُوا يُسَيِّبُونَهَا لِآلِهَتِهِمْ فَلَا يُحْمَلُ عَلَيْهَا شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "رَأَيْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرِ بْنِ لُحَيٍّ الْخُزَاعِيَّ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ سَيَّبَ السَّوَائِبَ".

ہم سے ابولیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ «بحيرة» وہ اونٹنی جس کے دودھ کی ممانعت ہوتی تھی۔ کیونکہ وہ بتوں کے لیے وقف ہوتی تھی۔ اس لیے کوئی بھی شخص اس کا دودھ نہیں دوھتا تھا اور «سائبة» اسے کہتے جس کو وہ اپنے معبودوں کے لیے چھوڑ دیتے اور ان پر کوئی بوجھ نہ لادتا اور نہ کوئی سواری کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے عمرو بن عامر بن لحیی خزاعی کو دیکھا کہ جہنم میں وہ اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا تھا اور یہی عمرو وہ پہلا شخص ہے جس نے «سائبة» کی رسم نکالی۔

ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا بیان

حد یث نمبر - 3522

حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَمَّا بَلَغَ أَبَا ذَرٍّ مَبْعَثُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لِأَخِيهِ ارْكَبْ إِلَى هَذَا الْوَادِي فَاعْلَمْ لِي عِلْمَ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ يَأْتِيهِ الْخَبَرُ مِنَ السَّمَاءِ،‏‏‏‏ وَاسْمَعْ مِنْ قَوْلِهِ ثُمَّ ائْتِنِي،‏‏‏‏ فَانْطَلَقَ الْأَخُ حَتَّى قَدِمَهُ وَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ،‏‏‏‏ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَبِي ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ رَأَيْتُهُ يَأْمُرُ بِمَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ وَكَلَامًا مَا هُوَ بِالشِّعْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا شَفَيْتَنِي مِمَّا أَرَدْتُ فَتَزَوَّدَ وَحَمَلَ شَنَّةً لَهُ فِيهَا مَاءٌ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ فَأَتَى الْمَسْجِدَ،‏‏‏‏ فَالْتَمَسَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَعْرِفُهُ وَكَرِهَ أَنْ يَسْأَلَ عَنْهُ حَتَّى أَدْرَكَهُ بَعْضُ اللَّيْلِ،‏‏‏‏ فَاضْطَجَعَ فَرَآهُ عَلِيٌّ فَعَرَفَ أَنَّهُ غَرِيبٌ،‏‏‏‏ فَلَمَّا رَآهُ تَبِعَهُ فَلَمْ يَسْأَلْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَصْبَحَ،‏‏‏‏ ثُمَّ احْتَمَلَ قِرْبَتَهُ وَزَادَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ وَظَلَّ ذَلِكَ الْيَوْمَ وَلَا يَرَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَمْسَى،‏‏‏‏ فَعَادَ إِلَى مَضْجَعِهِ فَمَرَّ بِهِ عَلِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَمَا نَالَ لِلرَّجُلِ أَنْ يَعْلَمَ مَنْزِلَهُ،‏‏‏‏ فَأَقَامَهُ فَذَهَبَ بِهِ مَعَهُ لَا يَسْأَلُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الثَّالِثِ،‏‏‏‏ فَعَادَ عَلِيٌّ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ فَأَقَامَ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا تُحَدِّثُنِي مَا الَّذِي أَقْدَمَكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنْ أَعْطَيْتَنِي عَهْدًا وَمِيثَاقًا لَتُرْشِدَنِّي فَعَلْتُ،‏‏‏‏ فَفَعَلَ فَأَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنَّهُ حَقٌّ وَهُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا أَصْبَحْتَ فَاتْبَعْنِي،‏‏‏‏ فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ شَيْئًا أَخَافُ عَلَيْكَ قُمْتُ كَأَنِّي أُرِيقُ الْمَاءَ،‏‏‏‏ فَإِنْ مَضَيْتُ فَاتْبَعْنِي حَتَّى تَدْخُلَ مَدْخَلِي،‏‏‏‏ فَفَعَلَ فَانْطَلَقَ يَقْفُوهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَخَلَ مَعَهُ فَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ وَأَسْلَمَ مَكَانَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "ارْجِعْ إِلَى قَوْمِكَ فَأَخْبِرْهُمْ حَتَّى يَأْتِيَكَ أَمْرِي"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ،‏‏‏‏ فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ:‏‏‏‏ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ،‏‏‏‏ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَامَ الْقَوْمُ فَضَرَبُوهُ حَتَّى أَضْجَعُوهُ،‏‏‏‏ وَأَتَى الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "وَيْلَكُمْ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ مِنْ غِفَارٍ وَأَنَّ طَرِيقَ تِجَارِكُمْ إِلَى الشَّأْمِ،‏‏‏‏ فَأَنْقَذَهُ مِنْهُمْ ثُمَّ عَادَ مِنَ الْغَدِ لِمِثْلِهَا،‏‏‏‏ فَضَرَبُوهُ وَثَارُوا إِلَيْهِ فَأَكَبَّ الْعَبَّاسُ عَلَيْهِ".

مجھ سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے، کہا ہم سے مثنیٰ نے، ان سے ابوجمرہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ابوذر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی انیس سے کہا مکہ جانے کے لیے سواری تیار کر اور اس شخص کے متعلق جو نبی ہونے کا مدعی ہے اور کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبر آتی ہے، میرے لیے خبریں حاصل کر کے لا۔ اس کی باتوں کو خود غور سے سننا اور پھر میرے پاس آنا۔ ان کے بھائی وہاں سے چلے اور مکہ حاضر ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں خود سنیں پھر واپس ہو کر انہوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ میں نے انہیں خود دیکھا ہے، وہ اچھے اخلاق کا لوگوں کو حکم کرتے ہیں اور میں نے ان سے جو کلام سنا وہ شعر نہیں ہے۔ اس پر ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا جس مقصد کے لیے میں نے تمہیں بھیجا تھا مجھے اس پر پوری طرح تشفی نہیں ہوئی۔ آخر انہوں نے خود توشہ باندھا، پانی سے بھرا ہوا ایک پرانا مشکیزہ ساتھ لیا اور مکہ آئے۔ مسجد الحرام میں حاضری دی اور یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہیں تھے اور کسی سے آپ کے متعلق پوچھنا بھی مناسب نہیں سمجھا، کچھ رات گزر گئی کہ وہ لیٹے ہوئے تھے، علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اس حالت میں دیکھا اور سمجھ گئے کہ کوئی مسافر ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا آپ میرے گھر چل کر آرام کیجئے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے پیچھے چلے گئے لیکن کسی نے ایک دوسرے کے بارے میں بات نہیں کی۔ جب صبح ہوئی تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنا مشکیزہ اور توشہ اٹھایا اور مسجد الحرام میں آ گئے۔ یہ دن بھی یونہی گزر گیا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکے۔ شام ہوئی تو سونے کی تیاری کرنے لگے۔ علی رضی اللہ عنہ پھر وہاں سے گزرے اور سمجھ گئے کہ ابھی اپنے ٹھکانے جانے کا وقت اس شخص پر نہیں آیا، وہ انہیں وہاں سے پھر اپنے ساتھ لے آئے اور آج بھی کسی نے ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کی، تیسرا دن جب ہوا اور علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ یہی کام کیا اور اپنے ساتھ لے گئے تو ان سے پوچھا کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ یہاں آنے کا باعث کیا ہے؟ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے پختہ وعدہ کر لو کہ میری راہ نمائی کرو گے تو میں تم کو سب کچھ بتا دوں گا۔ علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ کر لیا تو انہوں نے انہیں اپنے خیالات کی خبر دی۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بلاشبہ وہ حق پر ہیں اور اللہ کے سچے رسول ہیں اچھا صبح کو تم میرے پیچھے پیچھے میرے ساتھ چلنا۔ اگر میں (راستے میں) کوئی ایسی بات دیکھوں جس سے مجھے تمہارے بارے میں کوئی خطرہ ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا (کسی دیوار کے قریب) گویا مجھے پیشاب کرنا ہے۔ اس وقت تم میرا انتظار مت کرنا اور جب میں پھر چلنے لگوں تو میرے پیچھے آ جانا تاکہ کوئی سمجھ نہ سکے کہ یہ دونوں ساتھ ہیں اور اس طرح جس گھر میں، میں داخل ہوں تم بھی داخل ہو جانا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور پیچھے پیچھے چلے تاآنکہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اور وہیں اسلام لے آئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اب اپنی قوم غفار میں واپس جاؤ اور انہیں میرا حال بتاؤ تاآنکہ جب ہمارے غلبہ کا علم تم کو ہو جائے (تو پھر ہمارے پاس آ جانا)۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں ان قریشیوں کے مجمع میں پکار کر کلمہ توحید کا اعلان کروں گا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے واپس وہ مسجد الحرام میں آئے اور بلند آواز سے کہا «أشهد أن لا إله إلا الله،‏‏‏‏ وأن محمدا رسول الله» میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ یہ سنتے ہی ان پر سارا مجمع ٹوٹ پڑا اور سب نے انہیں اتنا مارا کہ زمین پر لٹا دیا۔ اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ آ گئے اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے اوپر اپنے کو ڈال کر قریش سے انہوں نے کہا افسوس! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ شخص قبیلہ غفار سے ہے اور شام جانے والے تمہارے تاجروں کا راستہ ادھر ہی سے پڑتا ہے، اس طرح سے ان سے ان کو بچایا۔ پھر ابوذر رضی اللہ عنہ دوسرے دن مسجد الحرام میں آئے اور اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ قوم پھر بری طرح ان پر ٹوٹ پڑی اور مارنے لگے۔ اس دن بھی عباس رضی اللہ عنہ ان پر اوندھے پڑ گئے۔

زمزم کا واقعہ

حد یث نمبر - 3522

حَدَّثَنَا زَيْدٌ هُوَ ابْنُ أَخْزَمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي مُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ الْقَصِيرُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو جَمْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِإِسْلَامِ أَبِي ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ أَبُو ذَرٍّ :‏‏‏‏ كُنْتُ رَجُلًا مِنْ غِفَارٍ فَبَلَغَنَا أَنَّ رَجُلًا قَدْ خَرَجَ بِمَكَّةَ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ لِأَخِي انْطَلِقْ إِلَى هَذَا الرَّجُلِ كَلِّمْهُ وَأْتِنِي بِخَبَرِهِ فَانْطَلَقَ فَلَقِيَهُ ثُمَّ رَجَعَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا عِنْدَكَ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا يَأْمُرُ بِالْخَيْرِ وَيَنْهَى عَنِ الشَّرِّ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ لَمْ تَشْفِنِي مِنَ الْخَبَرِ فَأَخَذْتُ جِرَابًا وَعَصًا ثُمَّ أَقْبَلْتُ إِلَى مَكَّةَ فَجَعَلْتُ لَا أَعْرِفُهُ وَأَكْرَهُ أَنْ أَسْأَلَ عَنْهُ وَأَشْرَبُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ وَأَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَرَّ بِي عَلِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كَأَنَّ الرَّجُلَ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَانْطَلِقْ إِلَى الْمَنْزِلِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ لَا يَسْأَلُنِي عَنْ شَيْءٍ وَلَا أُخْبِرُهُ فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ لِأَسْأَلَ عَنْهُ وَلَيْسَ أَحَدٌ يُخْبِرُنِي عَنْهُ بِشَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَرَّ بِي عَلِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَمَا نَالَ لِلرَّجُلِ يَعْرِفُ مَنْزِلَهُ بَعْدُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ انْطَلِقْ مَعِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا أَمْرُكَ وَمَا أَقْدَمَكَ هَذِهِ الْبَلْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ إِنْ كَتَمْتَ عَلَيَّ أَخْبَرْتُكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنِّي أَفْعَلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ بَلَغَنَا أَنَّهُ قَدْ خَرَجَ هَا هُنَا رَجُلٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَأَرْسَلْتُ أَخِي لِيُكَلِّمَهُ فَرَجَعَ وَلَمْ يَشْفِنِي مِنَ الْخَبَرِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَلْقَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ أَمَا إِنَّكَ قَدْ رَشَدْتَ هَذَا وَجْهِي إِلَيْهِ فَاتَّبِعْنِي ادْخُلْ حَيْثُ أَدْخُلُ فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ أَحَدًا أَخَافُهُ عَلَيْكَ قُمْتُ إِلَى الْحَائِطِ كَأَنِّي أُصْلِحُ نَعْلِي وَامْضِ أَنْتَ فَمَضَى وَمَضَيْتُ مَعَهُ حَتَّى دَخَلَ وَدَخَلْتُ مَعَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ اعْرِضْ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ فَعَرَضَهُ فَأَسْلَمْتُ مَكَانِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِي:‏‏‏‏ "يَا أَبَا ذَرٍّ اكْتُمْ هَذَا الْأَمْرَ وَارْجِعْ إِلَى بَلَدِكَ فَإِذَا بَلَغَكَ ظُهُورُنَا فَأَقْبِلْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ فَجَاءَ إِلَى الْمَسْجِدِ وَقُرَيْشٌ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ إِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ قُومُوا إِلَى هَذَا الصَّابِئِ فَقَامُوا فَضُرِبْتُ لِأَمُوتَ فَأَدْرَكَنِي الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيَّ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَيْلَكُمْ تَقْتُلُونَ رَجُلًا مِنْ غِفَارَ وَمَتْجَرُكُمْ وَمَمَرُّكُمْ عَلَى غِفَارَ فَأَقْلَعُوا عَنِّي فَلَمَّا أَنْ أَصْبَحْتُ الْغَدَ رَجَعْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مِثْلَ مَا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ بِالْأَمْسِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ قُومُوا إِلَى هَذَا الصَّابِئِ فَصُنِعَ بِي مِثْلَ مَا صُنِعَ بِالْأَمْسِ وَأَدْرَكَنِي الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ مِثْلَ مَقَالَتِهِ بِالْأَمْسِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَكَانَ هَذَا أَوَّلَ إِسْلَامِ أَبِي ذَرٍّ رَحِمَهُ اللَّهُ".

ہم سے زید نے جو اخزم کے بیٹے ہیں، بیان کیا، کہا ہم سے ابوقتیبہ سلم بن قتیبہ نے بیان کیا، ان سے مثنیٰ بن سعید قصیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوجمرہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ کیا میں ابوذر رضی اللہ عنہ کے اسلام کا واقعہ تمہیں سناؤں؟ ہم نے عرض کیا ضرور سنائیے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے بتلایا۔ میرا تعلق قبیلہ غفار سے تھا۔ ہمارے یہاں یہ خبر پہنچی تھی کہ مکہ میں ایک شخص پیدا ہوئے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہیں (پہلے تو) میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ اس شخص کے پاس مکہ جا، اس سے گفتگو کر اور پھر اس کے سارے حالات آ کر مجھے بتا۔ چنانچہ میرے بھائی خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور واپس آ گئے۔ میں نے پوچھا کہ کیا خبر لائے؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جو اچھے کاموں کے لیے کہتا ہے اور برے کاموں سے منع کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ تمہاری باتوں سے تو میری تشفی نہیں ہوئی۔ اب میں نے توشے کا تھیلا اور چھڑی اٹھائی اور مکہ آ گیا۔ وہاں میں کسی کو پہچانتا نہیں تھا اور آپ کے متعلق کسی سے پوچھتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا۔ میں (صرف) زمزم کا پانی پی لیا کرتا تھا، اور مسجد الحرام میں ٹھہرا ہوا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ علی رضی اللہ عنہ میرے سامنے سے گزرے اور بولے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس شہر میں مسافر ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا: جی ہاں۔ بیان کیا کہ تو پھر میرے گھر چلو۔ پھر وہ مجھے اپنے گھر ساتھ لے گئے۔ بیان کیا کہ میں آپ کے ساتھ ساتھ گیا۔ نہ انہوں نے کوئی بات پوچھی اور نہ میں نے کچھ کہا۔ صبح ہوئی تو میں پھر مسجد الحرام میں آ گیا تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کسی سے پوچھوں لیکن آپ کے بارے میں کوئی بتانے والا نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر علی رضی اللہ عنہ میرے سامنے سے گزرے اور بولے کہ کیا ابھی تک آپ اپنے ٹھکانے کو نہیں پا سکے ہیں؟ بیان کیا، میں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اچھا پھر میرے ساتھ آئیے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا۔ آپ کا مطلب کیا ہے۔ آپ اس شہر میں کیوں آئے؟ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا: آپ اگر ظاہر نہ کریں تو میں آپ کو اپنے معاملے کے بارے میں بتاؤں۔ انہوں نے کہا کہ میں ایسا ہی کروں گا۔ تب میں نے ان سے کہا۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہاں کوئی شخص پیدا ہوئے ہیں جو نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ میں نے پہلے اپنے بھائی کو ان سے بات کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ لیکن جب وہ واپس ہوئے تو انہوں نے مجھے کوئی تشفی بخش اطلاعات نہیں دیں۔ اس لیے میں اس ارادہ سے آیا ہوں کہ ان سے خود ملاقات کروں۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ نے اچھا راستہ پایا کہ مجھ سے مل گئے۔ میں انہیں کے پاس جا رہا ہوں۔ آپ میرے پیچھے پیچھے چلیں۔ جہاں میں داخل ہوں آپ بھی داخل ہو جائیں۔ اگر میں کسی ایسے آدمی کو دیکھوں گا جس سے آپ کے بارے میں مجھے خطرہ ہو گا تو میں کسی دیوار کے پاس کھڑا ہو جاؤں گا، گویا کہ میں اپنا جوتا ٹھیک کر رہا ہوں۔ اس وقت آپ آگے بڑھ جائیں چنانچہ وہ چلے اور میں بھی ان کے پیچھے ہو لیا اور آخر میں وہ ایک مکان کے اندر گئے اور میں بھی ان کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اندر داخل ہو گیا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اسلام کے اصول و ارکان مجھے سمجھا دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سامنے ان کی وضاحت فرمائی اور میں مسلمان ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوذر! اس معاملے کو ابھی پوشیدہ رکھنا اور اپنے شہر کو چلے جانا۔ پھر جب تمہیں ہمارے غلبہ کا حال معلوم ہو جائے تب یہاں دوبارہ آنا۔ میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں تو ان سب کے سامنے اسلام کے کلمہ کا اعلان کروں گا۔ چنانچہ وہ مسجد الحرام میں آئے۔ قریش کے لوگ وہاں موجود تھے اور کہا، اے قریش کی جماعت! (سنو) میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ قریشیوں نے کہا کہ اس بددین کی خبر لو۔ چنانچہ وہ میری طرف لپکے اور مجھے اتنا مارا کہ میں مرنے کے قریب ہو گیا۔ اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ آ گئے اور مجھ پر گر کر مجھے اپنے جسم سے چھپا لیا اور قریشیوں کی طرف متوجہ ہو کر انہوں کہا۔ ارے نادانو! قبیلہ غفار کے آدمی کو قتل کرتے ہو۔ غفار سے تو تمہاری تجارت بھی ہے اور تمہارے قافلے بھی اس طرف سے گزرتے ہیں۔ اس پر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ پھر جب دوسری صبح ہوئی تو پھر میں مسجد الحرام میں آیا اور جو کچھ میں نے کل پکارا تھا اسی کو پھر دہرایا۔ قریشیوں نے پھر کہا: پکڑو اس بددین کو۔ جو کچھ انہوں نے میرے ساتھ کل کیا تھا وہی آج بھی کیا۔ اتفاق سے پھر عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ آ گئے اور مجھ پر گر کر مجھے اپنے جسم سے انہوں نے چھپا لیا اور جیسا انہوں نے قریشیوں سے کل کہا تھا ویسا ہی آج بھی کہا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کی ابتداء اس طرح سے ہوئی تھی۔

عرب قوم کی جہالت کا بیان

حد یث نمبر - 3523

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ أَسْلَمُ وَغِفَارُ وَشَيْءٌ مِنْ مُزَيْنَةَ وَجُهَيْنَةَ- أَوْ قَالَ شَيْءٌ مِنْ جُهَيْنَةَ أَوْ مُزَيْنَةَ- خَيْرٌ عِنْدَ اللَّهِ- أَوْ قَالَ- يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ أَسَدٍ وَتَمِيمٍ وَهَوَازِنَ وَغَطَفَانَ.

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے محمد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبیلہ اسلم، غفار اور مزینہ اور جہنیہ کے کچھ لوگ یا انہوں نے بیان کیا کہ مزینہ کے کچھ لوگ یا (بیان کیا کہ) جہینہ کے کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یا بیان کیا کہ قیامت کے دن قبیلہ اسد، تمیم، ہوازن اور غطفان سے بہتر ہوں گے۔

عرب قوم کی جہالت کا بیان

حد یث نمبر - 3524

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِذَا سَرَّكَ أَنْ تَعْلَمَ جَهْلَ الْعَرَبِ فَاقْرَأْ مَا فَوْقَ الثَّلَاثِينَ وَمِائَةٍ فِي سُورَةِ الْأَنْعَامِ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ إِلَى قَوْلِهِ قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ سورة الأنعام آية 140".

ہم سے ابولنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے بشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ اگر تم کو عرب کی جہالت معلوم کرنا اچھا لگے تو سورۃ الانعام میں ایک سو تیس آیتوں کے بعد یہ آیتیں پڑھ لو «قد خسر الذين قتلوا أولادهم سفها بغير علم‏» یقیناً وہ لوگ تباہ ہوئے جنہوں نے اپنی اولاد کو نادانی سے مار ڈالا۔ سے لے کر «قد ضلوا وما كانوا مهتدين‏» وہ گمراہ ہیں، راہ پانے والے نہیں۔ تک۔

اپنے مسلمان یا غیر مسلم باپ دادوں کی طرف اپنی نسبت کرنا

وَقَالَ:‏‏‏‏ ابْنُ عُمَرَ وَأَبُو هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْكَرِيمَ ابْنَ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ الْبَرَاءُ:‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ.

اور عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کریم بن کریم بن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام تھے۔ اور براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔

اپنے مسلمان یا غیر مسلم باپ دادوں کی طرف اپنی نسبت کرنا

حد یث نمبر - 3525

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يُنَادِي يَا بَنِي فِهْرٍ يَا بَنِي عَدِيٍّ لِبُطُونِ قُرَيْشٍ.

ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے، کہا ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب (سورۃ الشعراء کی) یہ آیت اتری «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» اے پیغمبر! اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے مختلف قبیلوں کو بلایا اے بنی فہر! اے بنی عدی! جو قریش کے خاندان تھے۔

اپنے مسلمان یا غیر مسلم باپ دادوں کی طرف اپنی نسبت کرنا

حد یث نمبر - 3526

وَقَالَ لَنَا قَبِيصَةُ :‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُوهُمْ قَبَائِلَ قَبَائِلَ".

(امام بخاری رحمہ اللہ نے) کہا کہ ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، انہیں سفیان نے خبر دی، انہیں حبیب بن ابی ثابت نے، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب یہ آیت «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» اور آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔ اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ الگ قبائل کو دعوت دی۔

اپنے مسلمان یا غیر مسلم باپ دادوں کی طرف اپنی نسبت کرنا

حد یث نمبر - 3527

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَادِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْرَجِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏يَا أُمَّ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ اشْتَرِيَا أَنْفُسَكُمَا مِنَ اللَّهِ لَا أَمْلِكُ لَكُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا سَلَانِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتُمَا".

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم کو ابوالزناد نے خبر دی، انہیں اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عبدمناف کے بیٹو! اپنی جانوں کو اللہ سے خرید لو (یعنی نیک کام کر کے انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا لو)۔ اے عبدالمطلب کے بیٹو! اپنی جانوں کو اللہ تعالیٰ سے خرید لو۔ اے زبیر بن عوام کی والدہ! رسول اللہ کی پھوپھی، اے فاطمہ بنت محمد! تم دونوں اپنی جانوں کو اللہ سے بچا لو۔ میں تمہارے لیے اللہ کی بارگاہ میں کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ تم دونوں میرے مال میں جتنا چاہو مانگ سکتی ہو۔

کسی قوم کا بھانجا یا آزاد کیا ہوا غلام بھی اسی قوم میں داخل ہوتا ہے

حد یث نمبر - 3528

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَنْصَارَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "هَلْ فِيكُمْ أَحَدٌ مِنْ غَيْرِكُمْ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ لَا إِلَّا ابْنُ أُخْتٍ لَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ ابْنُ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْهُمْ".

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو خاص طور سے ایک مرتبہ بلایا، پھر ان سے پوچھا کیا تم لوگوں میں کوئی ایسا شخص بھی رہتا ہے جس کا تعلق تمہارے قبیلے سے نہ ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ صرف ہمارا ایک بھانجا ایسا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھانجا بھی اسی قوم میں داخل ہوتا ہے۔

حبشہ کے لوگوں کا بیان

وَقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا بَنِي أَرْفَدَةَ».

اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اے بنی ارفدہ۔

حبشہ کے لوگوں کا بیان

حد یث نمبر - 3529

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقَيْلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ"دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا جَارِيَتَانِ فِي أَيَّامِ مِنًى تُغَنِّيَانِ وَتُدَفِّفَانِ وَتَضْرِبَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَغَشٍّ بِثَوْبِهِ فَانْتَهَرَهُمَا أَبُو بَكْرٍ فَكَشَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ فَإِنَّهَا أَيَّامُ عِيدٍ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ أَيَّامُ مِنًى.

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے یہاں تشریف لائے تو وہاں (انصار کی) دو لڑکیاں دف بجا کر گا رہی تھیں۔ یہ حج کے ایام منیٰ کا واقعہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روئے مبارک پر کپڑا ڈالے ہوئے لیٹے ہوئے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹا کر فرمایا ابوبکر! انہیں چھوڑ دو، یہ عید کے دن ہیں، یہ منیٰ میں ٹھہرنے کے دن تھے۔

حبشہ کے لوگوں کا بیان

حد یث نمبر - 3530

وَقَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتُرُنِي وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى الْحَبَشَةِ وَهُمْ يَلْعَبُونَ فِي الْمَسْجِدِ فَزَجَرَهُمْ عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ دَعْهُمْ أَمْنًا بَنِي أَرْفِدَةَ يَعْنِي مِنَ الْأَمْنِ".

اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو پردہ میں رکھے ہوئے ہیں اور میں حبشیوں کو دیکھ رہی تھی جو نیزوں کا کھیل مسجد میں کر رہے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں چھوڑ دو، بنی ارفدہ تم بےفکر ہو کر کھیلو۔

جو شخص یہ چاہے کہ اس کے باپ دادا کو کوئی برا نہ کہے

حد یث نمبر - 3531

حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "اسْتَأْذَنَ حَسَّانُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هِجَاءِ الْمُشْرِكِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كَيْفَ بِنَسَبِي ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ حَسَّانُ لَأَسُلَّنَّكَ مِنْهُمْ كَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةُ مِنَ الْعَجِينِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَهَبْتُ أَسُبُّ حَسَّانَ عِنْدَ عَائِشَةَ فَقَالَتْ لَا تَسُبَّهُ فَإِنَّهُ كَانَ يُنَافِحُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".

مجھ سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین (قریش) کی ہجو کرنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں بھی تو ان ہی کے خاندان سے ہوں۔ اس پر حسان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں آپ کو (شعر میں) اس طرح صاف نکال لے جاؤں گا جیسے آٹے میں سے بال نکال لیا جاتا ہے۔ اور (ہشام نے) اپنے والد سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا، عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں میں حسان رضی اللہ عنہ کو برا کہنے لگا تو انہوں نے فرمایا، انہیں برا نہ کہو، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مدافعت کیا کرتے تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں کا بیان

وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: ‏‏‏‏مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ‏‏‏‏ وَقَوْلِهِ: ‏‏‏‏مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ‏‏‏‏.

اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الاحزاب میں) ارشاد محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الفتح میں) ارشاد «محمد رسول الله والذين معه أشداء على الكفار‏» محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے مقابلہ میں انتہائی سخت ہوتے ہیں۔ اور سورۃ صف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد «من بعدي اسمه أحمد‏» ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں کا بیان

حد یث نمبر - 3532

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَعْنٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لِي خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِي الْكُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي وَأَنَا الْعَاقِبُ.

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے معن نے کہا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے محمد بن جیبر بن مطعم نے اور ان سے ان کے والد (جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد، احمد اور ماحی ہوں (یعنی مٹانے والا ہوں) کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں کہ تمام انسانوں کا (قیامت کے دن) میرے بعد حشر ہو گا اور میں عاقب ہوں یعنی خاتم النبین ہوں۔ میرے بعد کوئی نیا پیغمبر دنیا میں نہیں آئے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں کا بیان

حد یث نمبر - 3533

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْرَجِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَلَا تَعْجَبُونَ كَيْفَ يَصْرِفُ اللَّهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَعْنَهُمْ يَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا، ‏‏‏‏‏‏وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ".

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں تعجب نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے قریش کی گالیوں اور لعنت ملامت کو کس طرح دور کرتا ہے۔ مجھے وہ «مذمم» کہہ کر برا کہتے، اس پر لعنت کرتے ہیں۔ حالانکہ میں تو محمد ہوں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا

حد یث نمبر - 3534

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ كَرَجُلٍ بَنَى دَارًا فَأَكْمَلَهَا وَأَحْسَنَهَا إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَدْخُلُونَهَا وَيَتَعَجَّبُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُونَ لَوْلَا مَوْضِعُ اللَّبِنَةِ".

ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن میناء نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اور دوسرے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسی کسی شخص نے کوئی گھر بنایا، اسے خوب آراستہ پیراستہ کر کے مکمل کر دیا۔ صرف ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی۔ لوگ اس گھر میں داخل ہوتے اور تعجب کرتے اور کہتے کاش یہ ایک اینٹ کی جگہ خالی نہ رہتی تو کیسا اچھا مکمل گھر ہوتا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا

حد یث نمبر - 3535

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتِمُ النَّبِيِّينَ".

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں ہر طرح کی زینت پیدا کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی۔ اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان

حد یث نمبر - 3536

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقَيْلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا"أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُوُفِّيَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ"، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ ابْنُ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏وَأَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ مِثْلَهُ.

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی اور ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے سعید بن مسیب نے اسی طرح بیان کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت کا بیان

حد یث نمبر - 3537

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُمَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّوقِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ رَجُلٌ يَا أَبَا الْقَاسِمِ فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "سَمُّوا بِاسْمِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي".

ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں تھے کہ ایک صاحب کی آواز آئی۔ یا اباالقاسم! آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے (معلوم ہوا کہ انہوں نے کسی اور کو پکارا ہے) اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت مت رکھو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت کا بیان

حد یث نمبر - 3538

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "تَسَمَّوْا بِاسْمِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي".

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں منصور نے، انہیں سالم بن ابی الجعد نے اور انہیں جابر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے نام پر نام رکھا کرو لیکن میری کنیت نہ رکھا کرو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت کا بیان

حد یث نمبر - 3539

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ سِيرِينَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"سَمُّوا بِاسْمِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي".

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابن سیرین نے بیان کیا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت نہ رکھا کرو۔

باب: ۔۔۔ 21

حد یث نمبر - 3540

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْجُعَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَأَيْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ ابْنَ أَرْبَعٍ وَتِسْعِينَ جَلْدًا مُعْتَدِلًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ قَدْ عَلِمْتُ مَا مُتِّعْتُ بِهِ سَمْعِي وَبَصَرِي إِلَّا بِدُعَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ خَالَتِي ذَهَبَتْ بِي إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ ابْنَ أُخْتِي شَاكٍ فَادْعُ اللَّهَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "فَدَعَا لِي".

مجھ سے اسحٰق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو فضل بن موسیٰ نے خبر دی، انہیں جعید بن عبدالرحمٰن نے کہ میں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کو چورانوے سال کی عمر میں دیکھا کہ خاصے قوی و توانا تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ میرے کانوں اور آنکھوں سے جو میں نفع حاصل کر رہا ہوں وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت ہے۔ میری خالہ مجھے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئیں۔ اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میرا بھانجا بیمار ہے، آپ اس کے لیے دعا فرما دیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے دعا فرمائی۔

مہر نبوت کا بیان ( جو آپ کے دونوں کندھوں کے بیچ میں تھی )

حد یث نمبر - 3541

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَاتِمٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْجُعَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَقَعَ فَمَسَحَ رَأْسِي وَدَعَا لِي بِالْبَرَكَةِ وَتَوَضَّأَ فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتِمٍ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْحُجْلَةُ:‏‏‏‏ مِنْ حُجَلِ الْفَرَسِ الَّذِي بَيْنَ عَيْنَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ :‏‏‏‏ مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَةِ".

ہم سے محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے جعید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور انہوں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے سنا کہ میری خالہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئیں اور انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا بھانجا بیمار ہو گیا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر دست مبارک پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی پیا، پھر آپ کی پیٹھ کی طرف جا کے کھڑا ہو گیا اور میں نے مہر نبوت کو آپ کے دونوں مونڈھوں کے درمیان دیکھا۔ محمد بن عبیداللہ نے کہا کہ«حجلة» ، «حجل الفرس» سے مشتق ہے جو گھوڑے کی اس سفیدی کو کہتے ہیں جو اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں ہوتی ہے۔ ابراہیم بن حمزہ نے کہا: «مثل زر الحجلة» یعنی رائے مہملہ پہلے پھر زائے معجمہ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ صحیح یہ ہے کہ رائے مہملہ پہلے ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3542

حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ صَلَّى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْعَصْرَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَرَجَ يَمْشِي فَرَأَى الْحَسَنَ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَحَمَلَهُ عَلَى عَاتِقِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ بِأَبِي شَبِيهٌ بِالنَّبِيِّ لَا شَبِيهٌ بِعَلِيٍّ وَعَلِيٌّ يَضْحَكُ".

ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے عمر بن سعید بن ابی حسین نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عقبہ بن حارث نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ عصر کی نماز سے فارغ ہو کر مسجد سے باہر نکلے تو دیکھا کہ حسن رضی اللہ عنہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ آپ نے ان کو اپنے کندھے پر بٹھا لیا اور فرمایا: میرے باپ تم پر قربان ہوں تم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شباہت ہے۔ علی کی نہیں۔ یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ ہنس رہے تھے (خوش ہو رہے تھے)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3543

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ الْحَسَنُ يُشْبِهُهُ".

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زبیر نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا اور ان سے ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے دیکھا تھا۔ حسن رضی اللہ عنہ میں آپ کی پوری شباہت موجود تھی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3544

حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا جُحَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ عَلَيْهِمَا السَّلَام يُشْبِهُهُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ لِأَبِي جُحَيْفَةَ صِفْهُ لِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ أَبْيَضَ قَدْ شَمِطَ وَأَمَرَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثَ عَشْرَةَ قَلُوصًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ نَقْبِضَهَا".

مجھ سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن فضیل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے سنا۔ وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے، حسن بن علی رضی اللہ عنہما میں آپ کی شباہت پوری طرح موجود تھی۔ اسماعیل بن ابی خالد نے کہا، میں نے ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت بیان کریں۔ انہوں نے کہا آپ سفید رنگ کے تھے، کچھ بال سفید ہو گئے تھے اور آپ نے ہمیں تیرہ اونٹنیوں کے دیئے جانے کا حکم کیا تھا۔ لیکن ابھی ہم نے ان اونٹنیوں کو اپنے قبضہ میں بھی نہیں لیا تھا کہ آپ کی وفات ہو گئی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3545

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ وَهْبٍ أَبِي جُحَيْفَةَ السُّوَائِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْتُ بَيَاضًا مِنْ تَحْتِ شَفَتِهِ السُّفْلَى الْعَنْفَقَةَ".

ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے، ان سے وہب نے، ان سے ابوجحیفہ سوائی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نچلے ہونٹ مبارک کے نیچے ٹھوڑی کے کچھ بال سفید تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3546

حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ خَالِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ أَنَّهُ سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بُسْرٍ صَاحِبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَرَأَيْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ شَيْخًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ فِي عَنْفَقَتِهِ شَعَرَاتٌ بِيضٌ".

ہم سے عصام بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حریز بن عثمان نے بیان کیا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے ہو گئے تھے؟ انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹھوڑی کے چند بال سفید ہو گئے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3547

حَدَّثَنِي ابْنُ بُكَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَصِفُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كَانَ رَبْعَةً مِنَ الْقَوْمِ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلَا بِالْقَصِيرِ، ‏‏‏‏‏‏أَزْهَرَ اللَّوْنِ لَيْسَ بِأَبْيَضَ أَمْهَقَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا آدَمَ لَيْسَ بِجَعْدٍ قَطَطٍ وَلَا سَبْطٍ رَجِلٍ أُنْزِلَ عَلَيْهِ وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعِينَ فَلَبِثَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ يُنْزَلُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ وَقُبِضَ وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعَرَةً بَيْضَاءَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَبِيعَةُ:‏‏‏‏ فَرَأَيْتُ شَعَرًا مِنْ شَعَرِهِ فَإِذَا هُوَ أَحْمَرُ فَسَأَلْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ:‏‏‏‏ احْمَرَّ مِنَ الطِّيبِ".

مجھ سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، ان سے خالد نے، ان سے سعید بن ابی ہلال نے، ان سے ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف مبارکہ بیان کرتے ہوئے بتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم درمیانہ قد کے تھے۔ نہ بہت لمبے اور نہ چھوٹے قد والے۔ رنگ کھلتا ہوا تھا (سرخ و سفید)نہ خالی سفید تھے اور نہ بالکل گندم گوں۔ آپ کے بال نہ بالکل مڑے ہوئے سخت قسم کے تھے اور نہ سیدھے لٹکے ہوئے ہی تھے۔ نزول وحی کے وقت آپ کی عمر چالیس سال تھی۔ مکہ میں آپ نے دس سال تک قیام فرمایا اور اس پورے عرصہ میں آپ پر وحی نازل ہوتی رہی اور مدینہ میں بھی آپ کا قیام دس سال تک رہا۔ آپ کے سر اور داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہیں ہوئے تھے۔ ربیعہ (راوی حدیث) نے بیان کیا کہ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال دیکھا تو وہ لال تھا میں نے اس کے متعلق پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ خوشبو لگاتے لگاتے لال ہو گیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3548

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ وَلَا بِالْقَصِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا بِالْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ وَلَيْسَ بِالْآدَمِ وَلَيْسَ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالسَّبْطِ بَعَثَهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، ‏‏‏‏‏‏فَأَقَامَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَتَوَفَّاهُ اللَّهُ وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعْرَةً بَيْضَاءَ".

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو مالک بن انس نے خبر دی، انہیں ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بہت لمبے تھے اور نہ چھوٹے قد کے، نہ بالکل سفید تھے اور نہ گندمی رنگ کے۔ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال بہت زیادہ گھونگھریالے تھے اور نہ بالکل سیدھے لٹکے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں دس سال تک قیام کیا اور مدینہ میں دس سال تک قیام کیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دی تو آپ کے سر اور داڑھی کے بیس بال بھی سفید نہیں تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3549

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَحْسَنَ النَّاسِ وَجْهًا وَأَحْسَنَهُ خَلْقًا لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ وَلَا بِالْقَصِيرِ".

ہم سے ابوعبداللہ احمد بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحٰق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابواسحٰق نے بیان کیا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسن و جمال میں بھی سب سے بڑھ کر تھے اور جسمانی ساخت میں بھی سب سے بہتر تھے۔ آپ کا قد نہ بہت لانبا تھا اور نہ چھوٹا (بلکہ درمیانہ قد تھا)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3550

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ أَنَسًا هَلْ خَضَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا إِنَّمَا كَانَ شَيْءٌ فِي صُدْغَيْهِ".

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی خضاب بھی استعمال فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی خضاب نہیں لگایا۔ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں کنپٹیوں پر (سر میں) چند بال سفید تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3551

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"مَرْبُوعًا بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ لَهُ شَعَرٌ يَبْلُغُ شَحْمَةَ أُذُنِهِ رَأَيْتُهُ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ أَرَ شَيْئًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يُوسُفُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ إِلَى مَنْكِبَيْهِ".

ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درمیانہ قد کے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ بہت کشادہ اور کھلا ہوا تھا۔ آپ کے (سر کے) بال کانوں کی لو تک لٹکتے رہتے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ ایک سرخ جوڑے میں دیکھا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر حسین کسی کو نہیں دیکھا تھا۔ یوسف بن ابی اسحٰق نے اپنے والد کے واسطہ سے «إلى منكبيه‏.‏» بیان کیا (بجائے لفظ«شحمة أذنه») یعنی آپ کے بال مونڈھوں تک پہنچتے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3552

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سُئِلَ الْبَرَاءُ "أَكَانَ وَجْهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ السَّيْفِ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا بَلْ مِثْلَ الْقَمَرِ".

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے بیان کیا کہ کسی نے براء رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ تلوار کی طرح (لمبا پتلا) تھا؟ انہوں نے کہا نہیں، چہرہ مبارک چاند کی طرح (گول اور خوبصورت) تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3553

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مَنْصُورٍ أَبُو عَلِيٍّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ بِالْمَصِّيصَةِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَكَمِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا جُحَيْفَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْهَاجِرَةِ إِلَى الْبَطْحَاءِ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ صَلَّى الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ وَبَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ شُعْبَةُ :‏‏‏‏ وَزَادَفِيهِ عَوْنٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ أَبِي جُحَيْفَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ يَمُرُّ مِنْ وَرَائِهَا الْمَرْأَةُ وَقَامَ النَّاسُ فَجَعَلُوا يَأْخُذُونَ يَدَيْهِ فَيَمْسَحُونَ بِهَا وُجُوهَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ فَوَضَعْتُهَا عَلَى وَجْهِي، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا هِيَ أَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَطْيَبُ رَائِحَةً مِنَ الْمِسْكِ".

ہم سے ابوعلی حسن بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن محمد الاعور نے مصیصہ (شہر میں) بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے بیان کیا کہ میں نے ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت سفر کے ارادہ سے نکلے۔ بطحاء نامی جگہ پر پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور ظہر کی نماز دو رکعت (قصر) پڑھی پھر عصر کی بھی دو رکعت (قصر) پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک چھوٹا سا نیزہ (بطور سترہ) گڑا ہوا تھا۔ عون نے اپنے والد سے اس روایت میں یہ زیادہ کیا ہے کہ ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس نیزہ کے آگے سے آنے جانے والے آ جا رہے تھے۔ پھر صحابہ آپ کے پاس آ گئے اور آپ کے مبارک ہاتھوں کو تھام کر اپنے چہروں پر پھیرنے لگے۔ ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کو اپنے چہرے پر رکھا۔ اس وقت وہ برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے بھی زیادہ خوشبودار تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3554

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَجْوَدَ النَّاسِ وَأَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ وَكَانَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ".

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم کو یونس نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جبرائیل علیہ السلام کی ملاقات ہوتی تو آپ کی سخاوت اور بھی بڑھ جایا کرتی تھی۔ جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے تشریف لاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن مجید کا دور کرتے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر و بھلائی کے معاملے میں تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3555

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"دَخَلَ عَلَيْهَا مَسْرُورًا تَبْرُقُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَلَمْ تَسْمَعِي مَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الْمُدْلِجِيُّ لِزَيْدٍ وَأُسَامَةَ وَرَأَى أَقْدَامَهُمَا إِنَّ بَعْضَ هَذِهِ الْأَقْدَامِ مِنْ بَعْضٍ".

ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن شہاب نے خبر دی، انہیں عروہ نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں بہت ہی خوش خوش داخل ہوئے، خوشی اور مسرت سے پیشانی کی لکیریں چمک رہی تھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! تم نے سنا نہیں مجزز مدلجی نے زید و اسامہ کے صرف قدم دیکھ کر کیا بات کہی؟ اس نے کہا کہ ایک کے پاؤں دوسرے کے پاؤں سے ملتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3556

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقَيْلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّعَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ تَبُوكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَبْرُقُ وَجْهُهُ مِنَ السُّرُورِ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ حَتَّى كَأَنَّهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ وَكُنَّا نَعْرِفُ ذَلِكَ مِنْهُ".

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب نے اور ان سے عبداللہ بن کعب نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ غزوہ تبوک میں اپنے پیچھے رہ جانے کا واقعہ بیان کر رہے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں نے (توبہ قبول ہونے کے بعد) حاضر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو چہرہ مبارک مسرت و خوشی سے چمک رہا تھا۔ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی بات پر مسرور ہوتے تو چہرہ مبارک چمک اٹھتا، ایسا معلوم ہوتا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کو ہم اسی سے پہچان جاتے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3557

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "بُعِثْتُ مِنْ خَيْرِ قُرُونِ بَنِي آدَمَ قَرْنًا فَقَرْنًا حَتَّى كُنْتُ مِنَ الْقَرْنِ الَّذِي كُنْتُ فِيهِ".

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے عمرو بن ابی عمرو نے، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں (آدم علیہ السلام سے لے کر) برابر آدمیوں کے بہتر قرنوں میں ہوتا آیا ہوں (یعنی شریف اور پاکیزہ نسلوں میں) یہاں تک کہ وہ قرن آیا جس میں میں پیدا ہوا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3558

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يَسْدِلُ شَعَرَهُ وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَفْرُقُونَ رُءُوسَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَسْدِلُونَ رُءُوسَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيمَا لَمْ يُؤْمَرْ فِيهِ بِشَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ فَرَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ".

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھ کو عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سر کے آگے کے بالوں کو پیشانی پر) پڑا رہنے دیتے تھے اور مشرکین کی یہ عادت تھی کہ وہ آگے کے سر کے بال دو حصوں میں تقسیم کر لیتے تھے (پیشانی پر پڑا نہیں رہنے دیتے تھے) اور اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) سر کے آگے کے بال پیشانی پر پڑا رہنے دیتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان معاملات میں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم آپ کو نہ ملا ہوتا۔ اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے (اور حکم نازل ہونے کے بعد وحی پر عمل کرتے تھے) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سر میں مانگ نکالنے لگے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3559

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَمْزَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَسْرُوقٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَكَانَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "إِنَّ مِنْ خِيَارِكُمْ أَحْسَنَكُمْ أَخْلَاقًا".

ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے ابووائل نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدزبان اور لڑنے جھگڑنے والے نہیں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں (جو لوگوں سے کشادہ پیشانی سے پیش آئے)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3560

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ إِلَّا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللَّهِ فَيَنْتَقِمَ لِلَّهِ بِهَا".

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی دو چیزوں میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کے لیے کہا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اسی کو اختیار فرمایا جس میں آپ کو زیادہ آسانی معلوم ہوئی بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو۔ کیونکہ اگر اس میں گناہ کا کوئی شائبہ بھی ہوتا تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور رہتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا۔ لیکن اگر اللہ کی حرمت کو کوئی توڑتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ضرور بدلہ لیتے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3561

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَابِتٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "مَا مَسِسْتُ حَرِيرًا وَلَا دِيبَاجًا أَلْيَنَ مِنْ كَفِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا شَمِمْتُ رِيحًا قَطُّ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ عَرْفًا قَطُّ أَطْيَبَ مِنْ رِيحِ أَوْ عَرْفِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے ثابت نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم و نازک کوئی حریر و دیباج میرے ہاتھوں نے کبھی چھوا اور نہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سے زیادہ بہتر اور پاکیزہ کوئی خوشبو یا عطر سونگھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3562

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي عُتْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَشَدَّ حَيَاءً مِنَ الْعَذْرَاءِ فِي خِدْرِهَا.

ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے قتادہ نے، ان سے عبداللہ ابن ابی عتبہ نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ نشیں کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3563

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏ وَابْنُ مَهْدِيٍّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا كَرِهَ شَيْئًا عُرِفَ فِي وَجْهِهِ".

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان اور ابن مہدی دونوں نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے اسی طرح بیان کیا (اس زیادتی کے ساتھ) کہ جب آپ کسی بات کو برا سمجھتے تو آپ کے چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہو جاتا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3563

حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "مَا عَابَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا قَطُّ إِنِ اشْتَهَاهُ أَكَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِلَّا تَرَكَهُ".

مجھ علی بن جعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں نکالا، اگر آپ کو مرغوب ہوتا تو کھاتے ورنہ چھوڑ دیتے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3564

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْرَجِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ الْأَسْدِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"إِذَا سَجَدَ فَرَّجَ بَيْنَ يَدَيْهِ حَتَّى نَرَى إِبْطَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَقَالَ ابْنُ بُكَيْرٍ :‏‏‏‏ حَدَّثَنَا بَكْرٌ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ".

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے بکر بن مضر نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے اعرج نے، ان سے عبداللہ بن مالک بن بحینہ اسدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو دونوں ہاتھ پیٹ سے الگ رکھتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلیں ہم لوگ دیکھ لیتے، ابن بکیر نے بکر سے روایت کی اس میں یوں ہے، یہاں تک کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی تھی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3565

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُمْ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "كَانَ لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ دُعَائِهِ إِلَّا فِي الِاسْتِسْقَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ إِبْطَيْهِ".

ہم سے عبدالاعلی بن حماد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا استسقاء کے سوا اور کسی دعا میں (زیادہ اونچا) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ اس دعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا اونچا ہاتھ اٹھاتے کہ بغل مبارک کی سفیدی دکھائی دیتی تھی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3566

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَوْنَ بْنَ أَبِي جُحَيْفَةَذَكَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "دُفِعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْأَبْطَحِ فِي قُبَّةٍ كَانَ بِالْهَاجِرَةِ خَرَجَ بِلَالٌ فَنَادَى بِالصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ دَخَلَ فَأَخْرَجَ فَضْلَ وَضُوءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَقَعَ النَّاسُ عَلَيْهِ يَأْخُذُونَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ دَخَلَ فَأَخْرَجَ الْعَنَزَةَ وَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ سَاقَيْهِ فَرَكَزَ الْعَنَزَةَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَلَّى الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ الْحِمَارُ وَالْمَرْأَةُ".

ہم سے حسن بن صباح بزار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن سابق نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک بن مغول نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عون بن ابی جحیفہ سے سنا، وہ اپنے والد (ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ) سے نقل کرتے تھے کہ میں سفر کے ارادہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابطح میں (محصب میں) خیمہ کے اندر تشریف رکھتے تھے۔ کڑی دوپہر کا وقت تھا۔ اتنے میں بلال رضی اللہ عنہ نے باہر نکل کر نماز کے لیے اذان دی اور اندر آ گئے اور بلال رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی نکالا تو لوگ اسے لینے کے لیے ٹوٹ پڑے۔ پھر بلال رضی اللہ عنہ نے ایک نیزہ نکالا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے، گویا آپ کی پنڈلیوں کی چمک اب بھی میری نظروں کے سامنے ہے۔ بلال رضی اللہ عنہ نے (سترہ کے لیے) نیزہ گاڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کی دو دو رکعت قصر نماز پڑھائی، گدھے اور عورتیں آپ کے سامنے سے گزر رہی تھیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3567

حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ صَبَّاحٍ الْبَّزَّارُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ"يُحَدِّثُ حَدِيثًا لَوْ عَدَّهُ الْعَادُّ لَأَحْصَاهُ"،‏‏‏‏

مجھ سے حسن بن صباح بزار نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ٹھہر ٹھہر کر باتیں کرتے کہ اگر کوئی شخص (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ) گن لینا چاہتا تو گن سکتا تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان

حد یث نمبر - 3568

وَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي يُونُسُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهَا قَالَتْ:‏‏‏‏ أَلَا يُعْجِبُكَ أَبُو فُلَانٍ جَاءَ فَجَلَسَ إِلَى جَانِبِ حُجْرَتِي يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْمِعُنِي ذَلِكَ وَكُنْتُ أُسَبِّحُ فَقَامَ قَبْلَ أَنْ أَقْضِيَ سُبْحَتِي وَلَوْ أَدْرَكْتُهُ لَرَدَدْتُ عَلَيْهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَسْرُدُ الْحَدِيثَ كَسَرْدِكُمْ".

اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) پر تمہیں تعجب نہیں ہوا۔ وہ آئے اور میرے حجرہ کے ایک کونے میں بیٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مجھے سنانے کے لیے بیان کرنے لگے۔ میں اس وقت نماز پڑھ رہی تھی۔ پھر وہ میری نماز ختم ہونے سے پہلے ہی اٹھ کر چلے گئے۔ اگر وہ مجھے مل جاتے تو میں ان کی خبر لیتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری طرح یوں جلدی جلدی باتیں نہیں کیا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ظاہر میں سوتی تھیں لیکن دل غافل نہیں ہوتا تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ظاہر میں سوتی تھیں لیکن دل غافل نہیں ہوتا تھا

رَوَاهُ سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

اس کی روایت سعید بن میناء نے جابر رضی اللہ عنہ سے کی ہے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ظاہر میں سوتی تھیں لیکن دل غافل نہیں ہوتا تھا

حد یث نمبر - 3569

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ "مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏تَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَنَامُ عَيْنِي وَلَا يَنَامُ قَلْبِي".

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے سعید مقبری نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رمضان شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (تہجد یا تراویح) کی کیا کیفیت ہوتی تھی؟ انہوں نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک یا دوسرے کسی بھی مہینے میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے (ان ہی کو تہجد کہو یا تراویح) پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے، وہ رکعتیں کتنی لمبی ہوتی تھیں۔ کتنی اس میں خوبی ہوتی تھیں اس کے بارے میں نہ پوچھو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعتیں پڑھتے۔ یہ چاروں بھی کتنی لمبی ہوتیں اور ان میں کتنی خوبی ہوتی۔ اس کے متعلق نہ پوچھو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے کیوں سو جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ظاہر میں سوتی تھیں لیکن دل غافل نہیں ہوتا تھا

حد یث نمبر - 3570

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَخِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍيُحَدِّثُنَا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَسْجِدِ الْكَعْبَةِ جَاءَهُ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ قَبْلَ أَنْ يُوحَى إِلَيْهِ وَهُوَ نَائِمٌ فِي مَسْجِدِ الْحَرَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ"أَوَّلُهُمْ أَيُّهُمْ هُوَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَوْسَطُهُمْ هُوَ خَيْرُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ آخِرُهُمْ خُذُوا خَيْرَهُمْ فَكَانَتْ تِلْكَ فَلَمْ يَرَهُمْ حَتَّى جَاءُوا لَيْلَةً أُخْرَى، ‏‏‏‏‏‏فِيمَا يَرَى قَلْبُهُ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَائِمَةٌ عَيْنَاهُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَذَلِكَ الْأَنْبِيَاءُ تَنَامُ أَعْيُنُهُمْ وَلَا تَنَامُ قُلُوبُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَتَوَلَّاهُ جِبْرِيلُ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ".

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی (عبدالحمید) نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا وہ مسجد الحرام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کا واقعہ بیان کر رہے تھے کہ (معراج سے پہلے) تین فرشتے آئے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے سے بھی پہلے کا واقعہ ہے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام میں (دو آدمیوں حمزہ اور جعفر بن ابی طالب کے درمیان) سو رہے تھے۔ ایک فرشتے نے پوچھا: وہ کون ہیں؟ (جن کو لے جانے کا حکم ہے) دوسرے نے کہا کہ وہ درمیان والے ہیں۔ وہی سب سے بہتر ہیں۔ تیسرے نے کہا کہ پھر جو سب سے بہتر ہیں انہیں ساتھ لے چلو۔ اس رات صرف اتنا ہی واقعہ ہو کر رہ گیا۔ پھر آپ نے انہیں نہیں دیکھا۔ لیکن فرشتے ایک اور رات میں آئے۔ آپ دل کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور آپ کی آنکھیں سوتی تھیں پر دل نہیں سوتا تھا، اور تمام انبیاء کی یہی کیفیت ہوتی ہے کہ جب ان کی آنکھیں سوتی ہیں تو دل اس وقت بھی بیدار ہوتا ہے۔ غرض کہ پھر جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو اپنے ساتھ لیا اور آسمان پر چڑھا لے گئے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3571

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ زَرِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ أَبَا رَجَاءٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"فِي مَسِيرٍ فَأَدْلَجُوا لَيْلَتَهُمْ حَتَّى إِذَا كَانَ وَجْهُ الصُّبْحِ عَرَّسُوا، ‏‏‏‏‏‏فَغَلَبَتْهُمْ أَعْيُنُهُمْ حَتَّى ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ فَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ مِنْ مَنَامِهِ أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ لَا يُوقَظُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَنَامِهِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ فَاسْتَيْقَظَ عُمَرُ فَقَعَدَ أَبُو بَكْرٍ عِنْدَ رَأْسِهِ فَجَعَلَ يُكَبِّرُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ حَتَّى اسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ وَصَلَّى بِنَا الْغَدَاةَ فَاعْتَزَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لَمْ يُصَلِّ مَعَنَا فَلَمَّا انْصَرَفَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا فُلَانُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَيَمَّمَ بِالصَّعِيدِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَلَّى وَجَعَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَكُوبٍ بَيْنَ يَدَيْهِ وَقَدْ عَطِشْنَا عَطَشًا شَدِيدًا، ‏‏‏‏‏‏فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ إِذَا نَحْنُ بِامْرَأَةٍ سَادِلَةٍ رِجْلَيْهَا بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَا لَهَا:‏‏‏‏ أَيْنَ الْمَاءُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنَّهُ لَا مَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَا:‏‏‏‏ كَمْ بَيْنَ أَهْلِكِ وَبَيْنَ الْمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَا:‏‏‏‏ انْطَلِقِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَمَا رَسُولُ اللَّهِ فَلَمْ نُمَلِّكْهَا مِنْ أَمْرِهَا حَتَّى اسْتَقْبَلْنَا بِهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثَتْهُ بِمِثْلِ الَّذِي حَدَّثَتْنَا غَيْرَ أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهَا مُؤْتِمَةٌ فَأَمَرَ بِمَزَادَتَيْهَا فَمَسَحَ فِي الْعَزْلَاوَيْنِ فَشَرِبْنَا عِطَاشًا أَرْبَعِينَ رَجُلًا حَتَّى رَوِينَا فَمَلَأْنَا كُلَّ قِرْبَةٍ مَعَنَا وَإِدَاوَةٍ غَيْرَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ لَمْ نَسْقِ بَعِيرًا وَهِيَ تَكَادُ تَنِضُّ مِنَ الْمِلْءِ ثُمَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَاتُوا مَا عِنْدَكُمْ فَجُمِعَ لَهَا مِنَ الْكِسَرِ وَالتَّمْرِ حَتَّى أَتَتْ أَهْلَهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ لَقِيتُ أَسْحَرَ النَّاسِ أَوْ هُوَ نَبِيٌّ كَمَا زَعَمُوا فَهَدَى اللَّهُ ذَاكَ الصِّرْمَ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ فَأَسْلَمَتْ وَأَسْلَمُوا".

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے سلم بن زریر نے بیان کیا، انہوں نے ابورجاء سے سنا کہ ہم سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، رات بھر سب لوگ چلتے رہے جب صبح کا وقت قریب ہوا تو پڑاؤ کیا (چونکہ ہم تھکے ہوئے تھے) اس لیے سب لوگ اتنی گہری نیند سو گئے کہ سورج پوری طرح نکل آیا۔ سب سے پہلے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جاگے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو، جب آپ سوتے ہوتے تو جگاتے نہیں تھے تاآنکہ آپ خود ہی جاگتے، پھر عمر رضی اللہ عنہ بھی جاگ گئے۔ آخر ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے سر مبارک کے قریب بیٹھ گئے اور بلند آواز سے اللہ اکبر کہنے لگے۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاگ گئے اور وہاں سے کوچ کا حکم دے دیا۔ (پھر کچھ فاصلے پر تشریف لائے) اور یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور آپ نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ ایک شخص ہم سے دور کونے میں بیٹھا رہا۔ اس نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اے فلاں! ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے تجھے کس چیز نے روکا؟ اس نے عرض کیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ پاک مٹی سے تیمم کر لو (پھر اس نے بھی تیمم کے بعد) نماز پڑھی۔ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند سواروں کے ساتھ آگے بھیج دیا۔ (تاکہ پانی تلاش کریں کیونکہ) ہمیں سخت پیاس لگی ہوئی تھی، اب ہم اسی حالت میں چل رہے تھے کہ ہمیں ایک عورت ملی جو دو مشکوں کے درمیان (سواری پر) اپنے پاؤں لٹکائے ہوئے جا رہی تھی۔ ہم نے اس سے کہا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہاں پانی نہیں ہے۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ تمہارے گھر سے پانی کتنے فاصلے پر ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ایک دن ایک رات کا فاصلہ ہے، ہم نے اس سے کہا کہ اچھا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلو، وہ بولی رسول اللہ کے کیا معنی ہیں؟ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، آخر ہم اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے، اس نے آپ سے بھی وہی کہا جو ہم سے کہہ چکی تھی۔ ہاں اتنا اور کہا کہ وہ یتیم بچوں کی ماں ہے (اس لیے واجب الرحم ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اس کے دونوں مشکیزوں کو اتارا گیا اور آپ نے ان کے دہانوں پر دست مبارک پھیرا۔ ہم چالیس پیاسے آدمیوں نے اس میں سے خوب سیراب ہو کر پیا اور اپنے تمام مشکیزے اور بالٹیاں بھی بھر لیں صرف ہم نے اونٹوں کو پانی نہیں پلایا، اس کے باوجود اس کی مشکیں پانی سے اتنی بھری ہوئی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا ابھی بہہ پڑیں گی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے(کھانے کی چیزوں میں سے) میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ اس عورت کے لیے روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں لا کر جمع کر دیں گئیں۔ پھر جب وہ اپنے قبیلے میں آئی تو اپنے آدمیوں سے اس نے کہا کہ آج میں سب سے بڑے جادوگر سے مل کر آئی ہوں یا پھر جیسا کہ (اس کے ماننے والے) لوگ کہتے ہیں، وہ واقعی نبی ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس کے قبیلے کو اسی عورت کی وجہ سے ہدایت دی، وہ خود بھی اسلام لائی اور تمام قبیلے والوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3572

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِنَاءٍ وَهُوَ بِالزَّوْرَاءِ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ فَجَعَلَ الْمَاءُ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ قَتَادَةُ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِأَنَسٍ:‏‏‏‏ كَمْ كُنْتُمْ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثَلَاثَ مِائَةٍ أَوْ زُهَاءَ ثَلَاثِ مِائَةٍ".

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی عروبہ نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک برتن حاضر کیا گیا (پانی کا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت (مدینہ کے نزدیک) مقام زوراء میں تشریف رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں ہاتھ رکھا تو اس میں سے پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹنے لگا اور اسی پانی سے پوری جماعت نے وضو کیا۔ قتادہ نے کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ لوگ کتنی تعداد میں تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ تین سو رہے ہوں گے یا تین سو کے قریب رہے ہوں گے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3573

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَانَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ فَالْتُمِسَ الْوَضُوءُ فَلَمْ يَجِدُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَضُوءٍ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فِي ذَلِكَ الْإِنَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَتَوَضَّئُوا مِنْهُ فَرَأَيْتُ الْمَاءَ يَنْبُعُ مِنْ تَحْتِ أَصَابِعِهِ فَتَوَضَّأَ النَّاسُ حَتَّى تَوَضَّئُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ".

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحٰق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا، اور لوگ وضو کا پانی تلاش کر رہے تھے لیکن پانی کا کہیں پتہ نہیں تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (ایک برتن کے اندر) وضو کا پانی لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس برتن میں رکھا اور لوگوں سے فرمایا کہ اسی پانی سے وضو کریں۔ میں نے دیکھا کہ پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے نیچے سے ابل رہا تھا چنانچہ لوگوں نے وضو کیا یہاں تک کہ ہر شخص نے وضو کر لیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3574

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُبَارَكٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَزْمٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ الْحَسَنَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ مَخَارِجِهِ وَمَعَهُ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَانْطَلَقُوا يَسِيرُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلَمْ يَجِدُوا مَاءً يَتَوَضَّئُونَ فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ فَجَاءَ بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ يَسِيرٍ فَأَخَذَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ مَدَّ أَصَابِعَهُ الْأَرْبَعَ عَلَى الْقَدَحِ ثُمَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "قُومُوا فَتَوَضَّئُوا فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ حَتَّى بَلَغُوا فِيمَا يُرِيدُونَ مِنَ الْوَضُوءِ وَكَانُوا سَبْعِينَ أَوْ نَحْوَهُ".

ہم سے عبدالرحمٰن بن مبارک نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حزم بن مہران نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے امام حسن بصری سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر میں تھے اور آپ کے ساتھ کچھ صحابہ کرام بھی تھے، چلتے چلتے نماز کا وقت ہو گیا تو وضو کے لیے کہیں پانی نہیں ملا۔ آخر جماعت میں سے ایک صاحب اٹھے اور ایک بڑے سے پیالے میں تھوڑا سا پانی لے کر حاضر خدمت ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لیا اور اس کے پانی سے وضو کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ پیالے پر رکھا اور فرمایا کہ آؤ وضو کرو، پوری جماعت نے وضو کیا اور تمام آداب و سنن کے ساتھ پوری طرح کر لیا۔ ہم تعداد میں ستر یا اسی کے لگ بھگ تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3575

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَ يَزِيدَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَقَامَ مَنْ كَانَ قَرِيبَ الدَّارِ مِنَ الْمَسْجِدِ يَتَوَضَّأُ وَبَقِيَ قَوْمٌ فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِخْضَبٍ مِنْ حِجَارَةٍ فِيهِ مَاءٌ فَوَضَعَ كَفَّهُ فَصَغُرَ الْمِخْضَبُ أَنْ يَبْسُطَ فِيهِ كَفَّهُ فَضَمَّ أَصَابِعَهُ فَوَضَعَهَا فِي الْمِخْضَبِ فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ جَمِيعًا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ كَمْ كَانُوا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ ثَمَانُونَ رَجُلًا".

ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے یزید بن ہارون سے سنا، کہا کہ مجھ کو حمید نے خبر دی اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نماز کا وقت ہو چکا تھا، مسجد نبوی سے جن کے گھر قریب تھے انہوں نے تو وضو کر لیا لیکن بہت سے لوگ باقی رہ گئے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پتھر کی بنی ہوئی ایک لگن لائی گئی۔ اس میں پانی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا لیکن اس کا منہ اتنا تنگ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اندر اپنا ہاتھ پھیلا کر نہیں رکھ سکتے تھے، چنانچہ آپ نے انگلیاں ملا لیں اور لگن کے اندر ہاتھ کو ڈال دیا پھر (اسی پانی سے) جتنے لوگ باقی رہ گئے تھے سب نے وضو کیا۔ میں نے پوچھا کہ آپ حضرات کی تعداد کیا تھی؟ انس رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ اسّی آدمی تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3576

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "عَطِشَ النَّاسُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ يَدَيْهِ رِكْوَةٌ فَتَوَضَّأَ، ‏‏‏‏‏‏فَجَهِشَ النَّاسُ نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا لَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ لَيْسَ عِنْدَنَا مَاءٌ نَتَوَضَّأُ وَلَا نَشْرَبُ إِلَّا مَا بَيْنَ يَدَيْكَ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الرِّكْوَةِ فَجَعَلَ الْمَاءُ يَثُورُ بَيْنَ أَصَابِعِهِ كَأَمْثَالِ الْعُيُونِ فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ كَمْ كُنْتُمْ ؟ قَالَ، ‏‏‏‏‏‏لَوْ كُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَكَفَانَا كُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً".

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، ان سے حصین نے بیان کیا، ان سے سالم بن ابی الجعد نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ صلح حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی ہوئی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک چھاگل رکھا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا کہ جو پانی آپ کے سامنے ہے، اس پانی کے سوا نہ تو ہمارے پاس وضو کے لیے کوئی دوسرا پانی ہے اور نہ پینے کے لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ چھاگل میں رکھ دیا اور پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان میں سے چشمے کی طرح پھوٹنے لگا اور ہم سب لوگوں نے اس پانی کو پیا بھی اور اس سے وضو بھی کیا۔ میں نے پوچھا آپ لوگ کتنی تعداد میں تھے؟ کہا کہ اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی کافی ہوتا۔ ویسے ہماری تعداد اس وقت پندرہ سو تھی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3577

حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كُنَّا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً وَالْحُدَيْبِيَةُ بِئْرٌ فَنَزَحْنَاهَا حَتَّى لَمْ نَتْرُكْ فِيهَا قَطْرَةً، ‏‏‏‏‏‏فَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَفِيرِ الْبِئْرِ فَدَعَا بِمَاءٍ فَمَضْمَضَ وَمَجَّ فِي الْبِئْرِ فَمَكَثْنَا غَيْرَ بَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اسْتَقَيْنَا حَتَّى رَوِينَا وَرَوَتْ أَوْ صَدَرَتْ رَكَائِبُنَا".

ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ صلح حدیبیہ کے دن ہم چودہ سو کی تعداد میں تھے۔ حدیبیہ ایک کنویں کا نام ہے ہم نے اس سے اتنا پانی کھینچا کہ اس میں ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا (جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ تشریف لائے) اور کنویں کے کنارے بیٹھ کر پانی کی دعا کی اور اس پانی سے کلی کی اور کلی کا پانی کنویں میں ڈال دیا۔ ابھی تھوڑی دیر بھی نہیں ہوئی تھی کہ کنواں پھر پانی سے بھر گیا۔ ہم بھی اس سے خوب سیر ہوئے اور ہمارے اونٹ بھی سیراب ہو گئے یا پانی پی کر لوٹے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3578

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ أَبُو طَلْحَةَ:‏‏‏‏ لِأُمِّ سُلَيْمٍ لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ يَدِي وَلَاثَتْنِي بِبَعْضِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَذَهَبْتُ بِهِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَأَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بِطَعَامٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لِمَنْ مَعَهُ قُومُوا فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ:‏‏‏‏ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأَبُو طَلْحَةَ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَكِ فَأَتَتْ بِذَلِكَ الْخُبْزِ فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفُتَّ وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَّةً فَأَدَمَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ فِيهِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلًا".

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو مالک نے خبر دی، انہیں اسحٰق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے (میری والدہ) ام سلیم رضی اللہ عنہما سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی تو آپ کی آواز میں بہت ضعف معلوم ہوا۔ میرا خیال ہے کہ آپ بہت بھوکے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں، چنانچہ انہوں نے جَو کی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنی اوڑھنی نکالی او اس میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے ہاتھ میں چھپا دیا اور اس اوڑھنی کا دوسرا حصہ میرے بدن پر باندھ دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مجھے بھیجا۔ میں جو گیا تو آپ مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں آپ کے پاس کھڑا ہو گیا تو آپ نے فرمایا کیا ابوطلحہ نے تمہیں بھیجا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ نے دریافت فرمایا، کچھ کھانا دے کر؟ میں نے عرض کیا جی ہاں، جو صحابہ آپ کے ساتھ اس وقت موجود تھے، ان سب سے آپ نے فرمایا کہ چلو اٹھو، آپ تشریف لانے لگے اور میں آپ کے آگے آگے لپک رہا تھا اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچ کر میں نے انہیں خبر دی۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بولے، ام سلیم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بہت سے لوگوں کو ساتھ لائے ہیں ہمارے پاس اتنا کھانا کہاں ہے کہ سب کو کھلایا جا سکے؟ ام سلیم رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں (ہم فکر کیوں کریں؟) خیر ابوطلحہ آگے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ بھی چل رہے تھے۔ ام سلیم نے وہی روٹی لا کر آپ کے سامنے رکھ دی، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے حکم سے روٹیوں کا چورا کر دیا گیا، ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کپی نچوڑ کر اس پر کچھ گھی ڈال دیا، اور اس طرح سالن ہو گیا، آپ نے اس کے بعد اس پر دعا کی جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ پھر فرمایا دس آدمیوں کو بلا لو، انہوں نے ایسا ہی کیا، ان سب نے روٹی پیٹ بھر کر کھائی اور جب یہ لوگ باہر گئے تو آپ نے فرمایا کہ پھر دس آدمیوں کو بلا لو۔ چنانچہ دس آدمیوں کو بلایا گیا، انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا، جب یہ لوگ باہر گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر دس ہی آدمیوں کو اندر بلا لو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا۔ جب وہ باہر گئے تو آپ نے فرمایا کہ پھر دس آدمیوں کو دعوت دے دو۔ اس طرح سب لوگوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ ان لوگوں کی تعداد ستر یا اسی تھی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3579

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا نَعُدُّ الْآيَاتِ بَرَكَةً وَأَنْتُمْ تَعُدُّونَهَا تَخْوِيفًا، ‏‏‏‏‏‏كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَقَلَّ الْمَاءُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "اطْلُبُوا فَضْلَةً مِنْ مَاءٍ فَجَاءُوا بِإِنَاءٍ فِيهِ مَاءٌ قَلِيلٌ فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ حَيَّ عَلَى الطَّهُورِ الْمُبَارَكِ وَالْبَرَكَةُ مِنَ اللَّهِ فَلَقَدْ رَأَيْتُ الْمَاءَ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ كُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيحَ الطَّعَامِ وَهُوَ يُؤْكَلُ".

مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواحمد زبیری نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نے ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ معجزات کو ہم تو باعث برکت سمجھتے تھے اور تم لوگ ان سے ڈرتے ہو۔ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے اور پانی تقریباً ختم ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کچھ بھی پانی بچ گیا ہو اسے تلاش کرو۔ چنانچہ لوگ ایک برتن میں تھوڑا سا پانی لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ برتن میں ڈال دیا اور فرمایا: برکت والا پانی لو اور برکت تو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان میں سے پانی فوارے کی طرح پھوٹ رہا تھا اور ہم تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کھاتے وقت کھانے کے تسبیح سنتے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3580

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَامِرٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي جَابِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ"أَنَّ أَبَاهُ تُوُفِّيَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنَّ أَبِي تَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا وَلَيْسَ عِنْدِي إِلَّا مَا يُخْرِجُ نَخْلُهُ وَلَا يَبْلُغُ مَا يُخْرِجُ سِنِينَ مَا عَلَيْهِ فَانْطَلِقْ مَعِي لِكَيْ لَا يُفْحِشَ عَلَيَّ الْغُرَمَاءُ، ‏‏‏‏‏‏فَمَشَى حَوْلَ بَيْدَرٍ مِنْ بَيَادِرِ التَّمْرِ فَدَعَا ثَمَّ آخَرَ ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ انْزِعُوهُ فَأَوْفَاهُمُ الَّذِي لَهُمْ وَبَقِيَ مِثْلُ مَا أَعْطَاهُمْ".

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے عامر نے، کہا کہ مجھ سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کے والد (عبداللہ بن عمرو بن حرام، جنگ احد میں) شہید ہو گئے تھے۔ اور وہ مقروض تھے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ میرے والد اپنے اوپر قرض چھوڑ گئے۔ ادھر میرے پاس سوا اس پیداوار کے جو کھجوروں سے ہو گی اور کچھ نہیں ہے اور اس کی پیداوار سے تو برسوں میں قرض ادا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے آپ میرے ساتھ تشریف لے چلیے تاکہ قرض خواہ آپ کو دیکھ کر زیادہ منہ نہ پھاڑیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے (لیکن وہ نہیں مانے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے جو ڈھیر لگے ہوئے تھے پہلے ان میں سے ایک کے چاروں طرف چلے اور دعا کی۔ اسی طرح دوسرے ڈھیر کے بھی۔ پھر آپ اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ کھجوریں نکال کر انہیں دو۔ چنانچہ سارا قرض ادا ہو گیا اور جتنی کھجوریں قرض میں دی تھیں اتنی ہی بچ گئیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3581

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مَرَّةً:‏‏‏‏ "مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ أَوْ سَادِسٍ أَوْ كَمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلَاثَةٍ وَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ وَأَبُو بَكْرٍ ثَلَاثَةً، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَهُوَ أَنَا وَأَبِي وَأُمِّي وَلَا أَدْرِي هَلْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ امْرَأَتِي وَخَادِمِي بَيْنَ بَيْتِنَا وَبَيْنَ بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لَبِثَ حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَجَعَ فَلَبِثَ حَتَّى تَعَشَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ بَعْدَ مَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ لَهُ:‏‏‏‏ امْرَأَتُهُ مَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ أَوْ ضَيْفِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَوَعَشَّيْتِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ أَبَوْا حَتَّى تَجِيءَ قَدْ عَرَضُوا عَلَيْهِمْ فَغَلَبُوهُمْ فَذَهَبْتُ فَاخْتَبَأْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا غُنْثَرُ فَجَدَّعَ وَسَبَّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ كُلُوا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ لَا أَطْعَمُهُ أَبَدًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ، ‏‏‏‏‏‏وَايْمُ اللَّهِ مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنَ اللُّقْمَةِ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرُ مِنْهَا حَتَّى شَبِعُوا وَصَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلُ، ‏‏‏‏‏‏فَنَظَرَ أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا شَيْءٌ أَوْ أَكْثَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لِامْرَأَتِهِ يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ لَا وَقُرَّةِ عَيْنِي لَهِيَ الْآنَ أَكْثَرُ مِمَّا قَبْلُ بِثَلَاثِ مَرَّاتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا كَانَ الشَّيْطَانُ يَعْنِي يَمِينَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَكَلَ مِنْهَا لُقْمَةً، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ فَمَضَى الْأَجَلُ فَتَفَرَّقْنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مَعَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ اللَّهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ غَيْرَ أَنَّهُ بَعَثَ مَعَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ أَوْ كَمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَغَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ فَعَرَفْنَا مِنَ الْعِرَافَةِ".

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، ان سے ان کے والد سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعثمان نہدی نے بیان کیا اور ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ صفہ والے محتاج اور غریب لوگ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ جس کے گھر میں دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ ایک تیسرے کو بھی اپنے ساتھ لیتا جائے اور جس کے گھر چار آدمیوں کا کھانا ہو وہ پانچواں آدمی اپنے ساتھ لیتا جائے یا چھٹے کو بھی یا آپ نے اسی طرح کچھ فرمایا (راوی کو پانچ اور چھ میں شک ہے) خیر تو ابوبکر رضی اللہ عنہ تین اصحاب صفہ کو اپنے ساتھ لائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ دس اصحاب کو لے گئے اور گھر میں، میں تھا اور میرے ماں باپ تھے۔ ابوعثمان نے کہا مجھ کو یاد نہیں عبدالرحمٰن نے یہ بھی کہا، اور میری عورت اور خادم جو میرے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں کے گھروں میں کام کرتا تھا۔ لیکن خود ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھایا اور عشاء کی نماز تک وہاں ٹھہرے رہے (مہمانوں کو پہلے ہی بھیج چکے تھے) اس لیے انہیں اتنا ٹھہرنا پڑا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھا لیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کو جتنا منظور تھا اتنا حصہ رات کا جب گزر گیا تو آپ گھر واپس آئے۔ ان کی بیوی نے ان سے کہا، کیا بات ہوئی۔ آپ کو اپنے مہمان یاد نہیں رہے؟ انہوں نے پوچھا: کیا مہمانوں کو اب تک کھانا نہیں کھلایا؟ بیوی نے کہا کہ مہمانوں نے آپ کے آنے تک کھانے سے انکار کیا۔ ان کے سامنے کھانا پیش کیا گیا تھا لیکن وہ نہیں مانے۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں تو جلدی سے چھپ گیا(کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ غصہ ہو گئے تھے)۔ آپ نے ڈانٹا، اے پاجی! اور بہت برا بھلا کہا، پھر (مہمانوں سے) کہا چلو اب کھاؤ اور خود قسم کھا لی کہ میں تو کبھی نہ کھاؤں گا۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم، پھر ہم جو لقمہ بھی (اس کھانے میں سے)اٹھاتے تو جیسے نیچے سے کھانا اور زیادہ ہو جاتا تھا (اتنی اس میں برکت ہوئی) سب لوگوں نے شکم سیر ہو کر کھایا اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ رہا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو دیکھا تو کھانا جوں کا توں تھا یا پہلے سے بھی زیادہ۔ اس پر انہوں نے اپنی بیوی سے کہا، اے بنی فراس کی بہن (دیکھو تو یہ کیا معاملہ ہوا) انہوں نے کہا، کچھ بھی نہیں، میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم، کھانا تو پہلے سے تین گنا زیادہ معلوم ہوتا ہے، پھر وہ کھانا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی کھایا اور فرمایا کہ یہ میرا قسم کھانا تو شیطان کا اغوا تھا۔ ایک لقمہ کھا کر اسے آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے وہاں وہ صبح تک رکھا رہا۔ اتفاق سے ایک کافر قوم جس کا ہم مسلمانوں سے معاہدہ تھا اور معاہدہ کی مدت ختم ہو چکی تھی۔ ان سے لڑنے کے لیے فوج جمع کی گئی۔ پھر ہم بارہ ٹکڑیاں ہو گئے اور ہر آدمی کے ساتھ کتنے آدمی تھے یہ اللہ ہی جانتا ہے مگر اتنا ضرور معلوم ہے کہ آپ نے ان نقیبوں کو لشکر والوں کے ساتھ بھیجا۔ حاصل یہ کہ فوج والوں نے اس میں سے کھایا۔ یا عبدالرحمٰن نے کچھ ایسا ہی کہا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3582

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَابِتٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَصَابَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ قَحْطٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ يَوْمَ جُمُعَةٍ إِذْ قَامَ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَتِ الْكُرَاعُ هَلَكَتِ الشَّاءُ فَادْعُ اللَّهَ يَسْقِينَا فَمَدَّ يَدَيْهِ وَدَعَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَنَسٌ:‏‏‏‏ وَإِنَّ السَّمَاءَ لَمِثْلُ الزُّجَاجَةِ فَهَاجَتْ رِيحٌ أَنْشَأَتْ سَحَابًا ثُمَّ اجْتَمَعَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَرْسَلَتِ السَّمَاءُ عَزَالِيَهَا فَخَرَجْنَا نَخُوضُ الْمَاءَ حَتَّى أَتَيْنَا مَنَازِلَنَا فَلَمْ نَزَلْ نُمْطَرُ إِلَى الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى فَقَامَ إِلَيْهِ ذَلِكَ الرَّجُلُ أَوْ غَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ تَهَدَّمَتِ الْبُيُوتُ فَادْعُ اللَّهَ يَحْبِسْهُ فَتَبَسَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَنَظَرْتُ إِلَى السَّحَابِ تَصَدَّعَ حَوْلَ الْمَدِينَةِ كَأَنَّهُ إِكْلِيلٌ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو یونس سے بھی روایت کیا ہے۔ ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک سال قحط پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز کے لیے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ! گھوڑے بھوک سے ہلاک ہو گئے اور بکریاں بھی ہلاک ہو گئیں۔ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہم پر پانی برسائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس وقت آسمان شیشے کی طرح (بالکل صاف) تھا۔ اتنے میں ہوا چلی۔ اس نے ابر (بادل) کو اٹھایا پھر ابر کے بہت سے ٹکڑے جمع ہو گئے اور آسمان نے گویا اپنے دہانے کھول دیئے۔ ہم جب مسجد سے نکلے تو گھر پہنچتے پہنچتے پانی میں ڈوب چکے تھے۔ بارش یوں ہی دوسرے جمعہ تک برابر ہوتی رہی۔ دوسرے جمعہ کو وہی صاحب یا کوئی دوسرے پھر کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مکانات گر گئے۔ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ بارش کو روک دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: اے اللہ! اب ہمارے چاروں طرف بارش برسا (جہاں اس کی ضرورت ہو) ہم پر نہ برسا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ اسی وقت ابر پھٹ کر مدینہ کے ارد گرد سر پیچ کی طرح ہو گیا تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3583

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ أَبُو غَسَّانَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ وَاسْمُهُ عُمَرُ بْنُ الْعَلَاءِ أَخُو أَبِي عَمْرِو بْنِ الْعَلَاءِ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ نَافِعًا ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَخْطُبُ إِلَى جِذْعٍ فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ تَحَوَّلَ إِلَيْهِ فَحَنَّ الْجِذْعُ فَأَتَاهُ فَمَسَحَ يَدَهُ عَلَيْهِ"، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ عَبْدُ الْحَمِيدِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَامُعَاذُ بْنُ الْعَلَاءِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏بِهَذَا وَرَوَاهُ أَبُو عَاصِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي رَوَّادٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان یحییٰ بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوحفص نے جن کا نام عمر بن علاء ہے اور جو عمرو بن علاء کے بھائی ہیں، بیان کیا، کہا کہ میں نے نافع سے سنا اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک لکڑی کا سہارا لے کر خطبہ دیا کرتے تھے۔ پھر جب منبر بن گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لیے اس پر تشریف لے گئے۔ اس پر اس لکڑی نے باریک آواز سے رونا شروع کر دیا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب تشریف لائے اور اپنا ہاتھ اس پر پھیرا اور عبدالحمید نے کہا کہ ہمیں عثمان بن عمر نے خبر دی، انہیں معاذ بن علاء نے خبر دی اور انہیں نافع نے اسی حدیث کی اور اس کی روایت ابوعاصم نے کی، ان سے ابورواد نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3584

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يَقُومُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَى شَجَرَةٍ أَوْ نَخْلَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَوْ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا نَجْعَلُ لَكَ مِنْبَرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِنْ شِئْتُمْ فَجَعَلُوا لَهُ مِنْبَرًا فَلَمَّا كَانَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ دُفِعَ إِلَى الْمِنْبَرِ فَصَاحَتِ النَّخْلَةُ صِيَاحَ الصَّبِيِّ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَمَّهُ إِلَيْهِ تَئِنُّ أَنِينَ الصَّبِيِّ الَّذِي يُسَكَّنُ قَالَ:‏‏‏‏ كَانَتْ تَبْكِي عَلَى مَا كَانَتْ تَسْمَعُ مِنَ الذِّكْرِ عِنْدَهَا".

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا اور انہوں نے جابر بن عبداللہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے لیے ایک درخت (کے تنے) کے پاس کھڑے ہوتے یا (بیان کیا کہ) کھجور کے درخت کے پاس۔ پھر ایک انصاری عورت نے یا کسی صحابی نے کہا: یا رسول اللہ! کیوں نہ ہم آپ کے لیے ایک منبر تیار کر دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہارا جی چاہے تو کر دو۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے لیے منبر تیار کر دیا۔ جب جمعہ کا دن ہوا تو آپ اس منبر پر تشریف لے گئے۔ اس پر اس کھجور کے تنے سے بچے کی طرح رونے کی آواز آنے لگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اور اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔ جس طرح بچوں کو چپ کرنے کے لیے لوریاں دیتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح اسے چپ کرایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تنا اس لیے رو رہا تھا کہ وہ اللہ کے اس ذکر کو سنا کرتا تھا جو اس کے قریب ہوتا تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3585

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَخِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي حَفْصُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "كَانَ الْمَسْجِدُ مَسْقُوفًا عَلَى جُذُوعٍ مِنْ نَخْلٍ فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ يَقُومُ إِلَى جِذْعٍ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا صُنِعَ لَهُ الْمِنْبَرُ وَكَانَ عَلَيْهِ فَسَمِعْنَا لِذَلِكَ الْجِذْعِ صَوْتًا كَصَوْتِ الْعِشَارِ حَتَّى جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا فَسَكَنَتْ".

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، انہیں حفص بن عبیداللہ بن انس بن مالک نے خبر دی اور انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ مسجد نبوی کی چھت کھجور کے تنوں پر بنائی گئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ کے لیے تشریف لاتے تو آپ ان میں سے ایک تنے کے پاس کھڑے ہو جاتے لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے منبر بنا دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر تشریف لائے۔ پھر ہم نے اس تنے سے اس طرح کی رونے کی آواز سنی جیسی بوقت ولادت اونٹنی کی آواز ہوتی ہے۔ آخر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قریب آ کر اس پر ہاتھ رکھا تو وہ چپ ہوا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3586

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏ح حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْسُلَيْمَانَ سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُذَيْفَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَيُّكُمْ يَحْفَظُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ حُذَيْفَةُ:‏‏‏‏ أَنَا أَحْفَظُ كَمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ هَاتِ إِنَّكَ لَجَرِيءٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَجَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصَّدَقَةُ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَيْسَتْ هَذِهِ وَلَكِنْ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَا بَأْسَ عَلَيْكَ مِنْهَا إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يُفْتَحُ الْبَابُ أَوْ يُكْسَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا بَلْ يُكْسَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَاكَ أَحْرَى أَنْ لَا يُغْلَقَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْنَا:‏‏‏‏ عَلِمَ الْبَابَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ كَمَا أَنَّ دُونَ غَدٍ اللَّيْلَةَ إِنِّي حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَهُ وَأَمَرْنَا مَسْرُوقًا فَسَأَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنِ الْبَابُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عُمَرُ".

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، (دوسری سند) کہا مجھ سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے، ان سے شعبہ نے، ان سے سلیمان نے، انہوں نے ابووائل سے سنا، وہ حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا: فتنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کس کو یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ بولے کہ مجھے زیادہ یاد ہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر بیان کرو (ماشاء اللہ) تم تو بہت جری ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کی ایک آزمائش (فتنہ) تو اس کے گھر، مال اور پڑوس میں ہوتا ہے جس کا کفارہ، نماز، روزہ، صدقہ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسی نیکیاں بن جاتی ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا، بلکہ میری مراد اس فتنہ سے ہے جو سمندر کی طرح (ٹھاٹھیں مارتا) ہو گا۔ انہوں نے کہا اس فتنہ کا آپ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان بند دروازہ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا وہ دروازہ کھولا جائے گا یا توڑا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ توڑ دیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کہ پھر تو بند نہ ہو سکے گا۔ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا عمر رضی اللہ عنہ اس دروازے کے متعلق جانتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ اسی طرح جانتے تھے جیسے دن کے بعد رات کے آنے کو ہر شخص جانتا ہے۔ میں نے ایسی حدیث بیان کی جو غلط نہیں تھی۔ ہمیں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے(دروازہ کے متعلق) پوچھتے ہوئے ڈر معلوم ہوا۔ اس لیے ہم نے مسروق سے کہا تو انہوں نے پوچھا کہ وہ دروازہ کون ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ خود عمر رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3587

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْرَجِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا قَوْمًا نِعَالُهُمُ الشَّعَرُ وَحَتَّى تُقَاتِلُوا التُّرْكَ صِغَارَ الْأَعْيُنِ حُمْرَ الْوُجُوهِ ذُلْفَ الْأُنُوفِ كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ".

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک نہیں قائم ہو گی جب تک تم ایک ایسی قوم کے ساتھ جنگ نہ کر لو جن کے جوتے بال کے ہوں اور جب تک تم ترکوں سے جنگ نہ کر لو، جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی، چہرے سرخ ہوں گے، ناک چھوٹی اور چپٹی ہو گی، چہرے ایسے ہوں گے جیسے تہ بہ تہ ڈھال ہوتی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3588

وَتَجِدُونَ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ أَشَدَّهُمْ كَرَاهِيَةً لِهَذَا الأَمْرِ، حَتَّى يَقَعَ فِيهِ، وَالنَّاسُ مَعَادِنُ، خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الإِسْلاَمِ».

اور تم حکومت کے لیے سب سے زیادہ بہتر شخص اسے پاؤ گے جو حکومت کرنے کو برا جانے (یعنی اس منصب کو خود کے لیے ناپسند کرے) یہاں تک کہ وہ اس میں پھنس جائے۔ لوگوں کی مثال کان کی سی ہے جو جاہلیت میں شریف تھے، وہ اسلام لانے کے بعد بھی شریف ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3589

وَلَيَأْتِيَنَّ عَلَى أَحَدِكُمْ زَمَانٌ لأَنْ يَرَانِي أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَهُ مِثْلُ أَهْلِهِ وَمَالِهِ».

اور تم پر ایک ایسا دور بھی آنے والا ہے کہ تم میں سے کوئی اپنے سارے گھربار اور مال و دولت سے بڑھ کر مجھ کو دیکھ لینا زیادہ پسند کرے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3590

حَدَّثَنِي يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هَمَّامٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا خُوزًا، ‏‏‏‏‏‏وَكَرْمَانَ مِنْ الْأَعَاجِمِ حُمْرَ الْوُجُوهِ فُطْسَ الْأُنُوفِ صِغَارَ الْأَعْيُنِ وُجُوهُهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ نِعَالُهُمُ الشَّعَرُ"، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ غَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ.

مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے اور ان سے ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ تم ایرانیوں کے شہر خوز اور کرمان والوں سے جنگ نہ کر لو گے۔ چہرے ان کے سرخ ہوں گے۔ ناک چپٹی ہو گی۔ آنکھیں چھوٹی ہوں گی اور چہرے ایسے ہوں گے جیسے تہ بہ تہ ڈھال ہوتی ہے اور ان کے جوتے بالوں والے ہوں گے۔ یحییٰ کے علاوہ اس حدیث کو اوروں نے بھی عبدالرزاق سے روایت کیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3591

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي قَيْسٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ"صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ سِنِينَ لَمْ أَكُنْ فِي سِنِيَّ أَحْرَصَ عَلَى أَنْ أَعِيَ الْحَدِيثَ مِنِّي فِيهِنَّ سَمِعْتُهُ يَقُولُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ هَكَذَا بِيَدِهِ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نِعَالُهُمُ الشَّعَرُ وَهُوَ هَذَا الْبَارِزُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ سُفْيَانُ مَرَّةً وَهُمْ أَهْلُ الْبَازِرِ".

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ اسماعیل نے بیان کیا کہ مجھ کو قیس نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں تین سال رہا ہوں، اپنی پوری عمر میں مجھے حدیث یاد کرنے کا اتنا شوق کبھی نہیں ہوا جتنا ان تین سالوں میں تھا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا، آپ نے اپنے ہاتھ سے یوں اشارہ کر کے فرمایا کہ قیامت کے قریب تم لوگ (مسلمان) ایک ایسی قوم سے جنگ کرو گے جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے (مراد یہی ایرانی ہیں) سفیان نے ایک مرتبہ «وهو هذا البارز» کے بجائے الفاظ «وهم أهل البازر‏.‏» نقل کئے (یعنی ایرانی، یا کُردی، یا دیلم والے لوگ مراد ہیں)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3592

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ الْحَسَنَ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ تُقَاتِلُونَ قَوْمًا يَنْتَعِلُونَ الشَّعَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَتُقَاتِلُونَ قَوْمًا كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ".

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، کہا میں نے حسن سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے قریب تم ایک ایسی قوم سے جنگ کرو گے جو بالوں کا جوتا پہنتی ہو گی اور ایک ایسی قوم سے جنگ کرو گے جن کے منہ تہ بہ تہ ڈھالوں کی طرح ہوں گے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3593

حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "تُقَاتِلُكُمْ الْيَهُودُ فَتُسَلَّطُونَ عَلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقُولُ:‏‏‏‏ الْحَجَرُ يَا مُسْلِمُ هَذَا يَهُودِيٌّ وَرَائِي فَاقْتُلْهُ".

ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ تم یہودیوں سے ایک جنگ کرو گے اور اس میں ان پر غالب آ جاؤ گے۔ اس وقت یہ کیفیت ہو گی کہ (اگر کوئی یہودی جان بچانے کے لیے کسی پہاڑ میں بھی چھپ جائے گا تو) پتھر بولے گا کہ اے مسلمان! یہ یہودی میری آڑ میں چھپا ہوا ہے، اسے قتل کر دے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3594

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَغْزُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ لَهُمْ:‏‏‏‏ فِيكُمْ مَنْ صَحِبَ الرَّسُولَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ نَعَمْ فَيُفْتَحُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ يَغْزُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ لَهُمْ:‏‏‏‏ هَلْ فِيكُمْ مَنْ صَحِبَ مَنْ صَحِبَ الرَّسُولَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ نَعَمْ فَيُفْتَحُ لَهُمْ".

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جہاد کے لیے فوج جمع ہو گی، پوچھا جائے گا کہ فوج میں کوئی ایسے بزرگ بھی ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہو؟ ان سے کہا جائے گا کہ ہاں ہیں تو ان کے ذریعہ فتح کی دعا مانگی جائے گی۔ پھر ایک جہاد ہو گا اور پوچھا جائے گا: کیا فوج میں کوئی ایسے شخص ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی کی صحبت اٹھائی ہو؟ ان سے کہا جائے گا کہ ہاں ہیں تو ان کے ذریعہ فتح کی دعا مانگی جائے گا۔ پھر ان کی دعا کی برکت سے فتح ہو گی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3595

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَكَمِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا النَّضْرُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا سَعْدٌ الطَّائِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مُحِلُّ بْنُ خَلِيفَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَيْنَا أَنَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ فَشَكَا إِلَيْهِ الْفَاقَةَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَتَاهُ آخَرُ فَشَكَا إِلَيْهِ قَطْعَ السَّبِيلِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "يَا عَدِيُّ هَلْ رَأَيْتَ الْحِيرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ لَمْ أَرَهَا وَقَدْ أُنْبِئْتُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنْ الْحِيرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِي فَأَيْنَ دُعَّارُ طَيِّئٍ الَّذِينَ قَدْ سَعَّرُوا الْبِلَادَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتُفْتَحَنَّ كُنُوزُ كِسْرَى، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الرَّجُلَ يُخْرِجُ مِلْءَ كَفِّهِ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ يَطْلُبُ مَنْ يَقْبَلُهُ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَجِدُ أَحَدًا يَقْبَلُهُ مِنْهُ وَلَيَلْقَيَنَّ اللَّهَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ يَلْقَاهُ وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تَرْجُمَانٌ يُتَرْجِمُ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَيَقُولَنَّ لَهُ أَلَمْ أَبْعَثْ إِلَيْكَ رَسُولًا فَيُبَلِّغَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ أَلَمْ أُعْطِكَ مَالًا وَأُفْضِلْ عَلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ بَلَى فَيَنْظُرُ عَنْ يَمِينِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا جَهَنَّمَ وَيَنْظُرُ عَنْ يَسَارِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا جَهَنَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عَدِيٌّ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقَّةِ تَمْرَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ شِقَّةَ تَمْرَةٍ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عَدِيٌّ فَرَأَيْتُ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنْ الْحِيرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ إِلَّا اللَّهَ وَكُنْتُ فِيمَنِ افْتَتَحَ كُنُوزَ كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِكُمْ حَيَاةٌ لَتَرَوُنَّ مَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ النَّبِيُّ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْرِجُ مِلْءَ كَفِّهِ"، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا سَعْدَانُ بْنُ بِشْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو مُجَاهِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحِلُّ بْنُ خَلِيفَةَ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ عَدِيًّا كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

مجھ سے محمد بن حکم نے بیان کیا، کہا ہم کو نضر نے خبر دی، کہا ہم کو اسرائیل نے خبر دی، کہا ہم کو سعد طائی نے خبر دی، انہیں محل بن خلیفہ نے خبر دی، ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک صاحب آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فقر و فاقہ کی شکایت کی، پھر دوسرے صاحب آئے اور راستوں کی بدامنی کی شکایت کی، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عدی! تم نے مقام حیرہ دیکھا ہے؟ (جو کوفہ کے پاس ایک بستی ہے) میں نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا تو نہیں، البتہ اس کا نام میں نے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری زندگی کچھ اور لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ہودج میں ایک عورت اکیلی حیرہ سے سفر کرے گی اور (مکہ پہنچ کر) کعبہ کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا اسے کسی کا بھی خوف نہ ہو گا۔ میں نے (حیرت سے) اپنے دل میں کہا، پھر قبیلہ طے کے ان ڈاکوؤں کا کیا ہو گا جنہوں نے شہروں کو تباہ کر دیا ہے اور فساد کی آگ سلگا رکھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم کچھ اور دنوں تک زندہ رہے تو کسریٰ کے خزانے (تم پر) کھولے جائیں گے۔ میں (حیرت میں) بول پڑا کسریٰ بن ہرمز (ایران کا بادشاہ) کسریٰ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں کسریٰ بن ہرمز! اور اگر تم کچھ دنوں تک اور زندہ رہے تو یہ بھی دیکھو گے کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا چاندی بھر کر نکلے گا، اسے کسی ایسے آدمی کی تلاش ہو گی (جو اس کی زکوٰۃ) قبول کر لے لیکن اسے کوئی ایسا آدمی نہیں ملے گا جو اسے قبول کر لے۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا جو دن مقرر ہے اس وقت تم میں سے ہر کوئی اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ درمیان میں کوئی ترجمان نہ ہو گا (بلکہ پروردگار اس سے بلاواسطہ باتیں کرے گا) اللہ تعالیٰ اس سے دریافت کرے گا۔ کیا میں نے تمہارے پاس رسول نہیں بھیجے تھے جنہوں نے تم تک میرا پیغام پہنچا دیا ہو؟ وہ عرض کرے گا بیشک تو نے بھیجا تھا۔ اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا کیا میں نے مال اور اولاد تمہیں نہیں دی تھی؟ کیا میں نے ان کے ذریعہ تمہیں فضیلت نہیں دی تھی؟ وہ جواب دے گا بیشک تو نے دیا تھا۔ پھر وہ اپنی داہنی طرف دیکھے گا تو سوا جہنم کے اسے اور کچھ نظر نہ آئے گا پھر وہ بائیں طرف دیکھے گا تو ادھر بھی جہنم کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔ عدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ جہنم سے ڈرو، اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ ہو۔ اگر کسی کو کھجور کا ایک ٹکڑا بھی میسر نہ آ سکے تو (کسی سے) ایک اچھا کلمہ ہی کہہ دے۔ عدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے ہودج میں بیٹھی ہوئی ایک اکیلی عورت کو تو خود دیکھ لیا کہ حیرہ سے سفر کے لیے نکلی اور (مکہ پہنچ کر) اس نے کعبہ کا طواف کیا اور اسے اللہ کے سوا اور کسی سے (ڈاکو وغیرہ) کا (راستے میں) خوف نہیں تھا اور مجاہدین کی اس جماعت میں تو میں خود شریک تھا جس نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کئے۔ اور اگر تم لوگ کچھ دنوں اور زندہ رہے تو وہ بھی دیکھ لو گے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں (زکوٰۃ کا سونا چاندی) بھر کر نکلے گا (لیکن اسے لینے والا کوئی نہیں ملے گا) مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا ہم کو سعدان بن بشر نے خبر دی، ان سے ابومجاہد نے بیان کیا، ان سے محل بن خلیفہ نے بیان کیا، اور انہوں نے عدی رضی اللہ سنے سنا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، پھر یہی حدیث نقل کی جو اوپر مذکور ہوئی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3596

حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ شُرَحْبِيلٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِنِّي فَرَطُكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ إِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ خَزَائِنَ مَفَاتِيحِ الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ بَعْدِي أَنْ تُشْرِكُوا وَلَكِنْ أَخَافُ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا".

مجھ سے سعید بن شرحبیل نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید بن حبیب نے، ان سے ابوالخیر نے، ان سے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مدینہ سے باہر نکلے اور شہداء احد پر نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں (حوض کوثر پر) تم سے پہلے پہنچوں گا اور قیامت کے دن تمہارے لیے میر سامان بنوں گا۔ میں تم پر گواہی دوں گا اور اللہ کی قسم میں اپنے حوض کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں، مجھے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے۔ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا داری میں پڑ کر ایک دوسرے سے رشک و حسد نہ کرنے لگو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3597

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُسَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَشْرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُطُمٍ مِنَ الْآطَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى إِنِّي أَرَى الْفِتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ مَوَاقِعَ الْقَطْرِ".

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مدینہ کے ایک بلند ٹیلہ پر چڑھے اور فرمایا جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں کیا تمہیں بھی نظر آ رہا ہے؟ میں فتنوں کو دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے گھروں میں وہ اس طرح گر رہے ہیں جیسے بارش کی بوندیں گرا کرتیں ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3598

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ حَدَّثَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ أَبِي سُفْيَانَ حَدَّثَتْهَا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا فَزِعًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمأْجُوجَ مِثْلُ هَذَا وَحَلَّقَ بِإِصْبَعِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِالَّتِي تَلِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ زَيْنَبُ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ".

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا، ان سے زینب بنت ابی سلمہ نے بیان کیا، ان سے ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم کو زینب بنت ابی جحش رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت پریشان نظر آ رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں، عرب کے لیے تباہی اس شر سے آئے گی جس کے واقع ہونے کا زمانہ قریب آ گیا ہے۔ آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا شگاف پیدا ہو گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلیوں سے حلقہ بنا کر اس کی وضاحت کی۔ ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں نیک لوگ ہوں گے پھر بھی ہم ہلاک کر دیئے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں جب خباثتیں بڑھ جائیں گی (تو ایسا ہو گا)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3599

وَعَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَتْنِي هِنْدُ بِنْتُ الْحَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ اسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "سُبْحَانَ اللَّهِ مَاذَا أُنْزِلَ مِنَ الْخَزَائِنِ وَمَاذَا أُنْزِلَ مِنَ الْفِتَنِ".

اور زہری سے روایت ہے، ان سے ہند بنت الحارث نے بیان کیا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمبیدار ہوئے تو فرمایا سبحان اللہ! کیسے کیسے خزانے اترے ہیں (جو مسلمانوں کو ملیں گے) اور کیا کیا فتنے و فساد اترے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3600

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ الْمَاجِشُونِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لِي:‏‏‏‏ إِنِّي أَرَاكَ تُحِبُّ الْغَنَمَ وَتَتَّخِذُهَا فَأَصْلِحْهَا وَأَصْلِحْ رُعَامَهَا فَإِنِّي، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ تَكُونُ الْغَنَمُ فِيهِ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ أَوْ سَعَفَ الْجِبَالِ فِي مَوَاقِعِ الْقَطْرِ يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ".

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ بن ماجشون نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ نے، ان سے ان کے والد نے کہا، ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں بکریوں سے بہت محبت ہے اور تم انہیں پالتے ہو تو تم ان کی نگہداشت اچھی کیا کرو اور ان کی ناک کی صفائی کا بھی خیال رکھا کرو۔ کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ مسلمان کا سب سے عمدہ مال اس کی بکریاں ہوں گی جنہیں لے کر وہ پہاڑ کی چوٹیوں پر چڑھ جائے گا یا (آپ نے «سعف الجبال» کے لفظ فرمائے) وہ بارش گرنے کی جگہ میں چلا جائے گا۔ اس طرح وہ اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے بھاگتا پھرے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3601

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ الْأُوَيْسِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "سَتَكُونُ فِتَنٌ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي وَمَنْ يُشْرِفْ لَهَا تَسْتَشْرِفْهُ وَمَنْ وَجَدَ مَلْجَأً أَوْ مَعَاذًا فَلْيَعُذْ بِهِ".

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فتنوں کا دور جب آئے گا تو اس میں بیٹھنے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہو گا، کھڑا رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہو گا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا جو اس میں جھانکے گا فتنہ بھی اسے اچک لے گا اور اس وقت جسے جہاں بھی پناہ مل جائے بس وہیں پناہ پکڑ لے تاکہ اپنے دین کو فتنوں سے بچا سکے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3602

وَعَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُطِيعِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَوْفَلِ بْنِ مُعَاوِيَةَ مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ هَذَا إِلَّا أَنَّ أَبَا بَكْرٍ يَزِيدُ مِنَ الصَّلَاةِ صَلَاةٌ مَنْ فَاتَتْهُ فَكَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ".

اور ابن شہاب سے روایت ہے، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن مطیع بن اسود نے اور ان سے نوفل بن معاویہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث کی طرح البتہ ابوبکر (راوی حدیث) نے اس روایت میں اتنا اور زیادہ بیان کیا کہ نمازوں میں ایک نماز ایسی ہے کہ جس سے وہ چھوٹ جائے گویا اس کا گھربار سب برباد ہو گئے۔ (اور وہ عصر کی نماز ہے)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3603

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "سَتَكُونُ أَثَرَةٌ وَأُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا تَأْمُرُنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تُؤَدُّونَ الْحَقَّ الَّذِي عَلَيْكُمْ وَتَسْأَلُونَ اللَّهَ الَّذِي لَكُمْ".

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں زید بن وہب نے اور انہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد تم پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں تم پر دوسروں کو مقدم کیا جائے گا اور ایسی باتیں سامنے آئیں گی جن کو تم برا سمجھو گے۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس وقت ہمیں آپ کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو حقوق تم پر دوسروں کے واجب ہوں انہیں ادا کرتے رہنا اور اپنے حقوق اللہ ہی سے مانگنا۔(یعنی صبر کرنا اور اپنا حق لینے کے لیے خلیفہ اور حاکم وقت سے بغاوت نہ کرنا)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3604

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يُهْلِكُ النَّاسَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ فَمَا تَأْمُرُنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَوْ أَنَّ النَّاسَ اعْتَزَلُوهُمْ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مَحْمُودٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ .

مجھ سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعمر اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح نے، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس قبیلہ قریش کے بعض آدمی لوگوں کو ہلاک و برباد کر دیں گے۔ صحابہ نے عرض کیا: ایسے وقت کے لیے آپ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش لوگ ان سے بس الگ ہی رہتے۔ محمود بن غیلان نے بیان کیا کہ ہم سے ابوداؤد طیالسی نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں ابوالتیاح نے، انہوں نے ابوزرعہ سے سنا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3605

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَكِّيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ مَعَ مَرْوَانَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَسَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ الصَّادِقَ الْمَصْدُوقُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "هَلَاكُ أُمَّتِي عَلَى يَدَيْ غِلْمَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مَرْوَانُ:‏‏‏‏ غِلْمَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ:‏‏‏‏ إِنْ شِئْتَ أَنْ أُسَمِّيَهُمْ بَنِي فُلَانٍ وَبَنِي فُلَانٍ".

مجھ سے احمد محمد مکی نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن یحییٰ بن سعید اموی نے بیان کیا، ان سے ان کے دادا نے بیان کیا کہ میں مروان بن حکم اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ اس وقت میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے سچوں کے سچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ میری امت کی بربادی قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھوں پر ہو گی۔ مروان نے پوچھا: نوجوان لڑکوں کے ہاتھ پر؟ اس پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں ان کے نام بھی لے دوں کہ وہ بنی فلاں اور بنی فلاں ہوں گے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3606

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ وَفِيهِ دَخَنٌ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ وَمَا دَخَنُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ".

ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن جابر نے، کہا کہ مجھ سے بسر بن عبیداللہ حضرمی نے، کہا کہ مجھ سے ابوادریس خولانی نے بیان کیا، انہوں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ دوسرے صحابہ کرام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق سوال کیا کرتے تھے لیکن میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا اس خوف سے کہ کہیں میں ان میں نہ پھنس جاؤں۔ تو میں نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: یا رسول اللہ! ہم جاہلیت اور شر کے زمانے میں تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر و برکت (اسلام کی) عطا فرمائی، اب کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، میں نے سوال کیا، اور اس شر کے بعد پھر خیر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، لیکن اس خیر پر کچھ دھواں ہو گا۔ میں نے عرض کیا وہ دھواں کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میری سنت اور طریقے کے علاوہ دوسرے طریقے اختیار کریں گے۔ ان میں کوئی بات اچھی ہو گی کوئی بری۔ میں نے سوال کیا: کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے، جو ان کی بات قبول کرے گا اسے وہ جہنم میں جھونک دیں گے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان کے اوصاف بھی بیان فرما دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ ہماری ہی قوم و مذہب کے ہوں گے۔ ہماری ہی زبان بولیں گے۔ میں نے عرض کیا، پھر اگر میں ان لوگوں کا زمانہ پاؤں تو میرے لیے آپ کا حکم کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا، میں نے عرض کیا اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا کوئی امام ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ان تمام فرقوں سے اپنے کو الگ رکھنا۔ اگرچہ تجھے اس کے لیے کسی درخت کی جڑ چبانی پڑے، یہاں تک کہ تیری موت آ جائے اور تو اسی حالت پر ہو (تو یہ تیرے حق میں ان کی صحبت میں رہنے سے بہتر ہو گا)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3607

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي قَيْسٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "تَعَلَّمَ أَصْحَابِي الْخَيْرَ وَتَعَلَّمْتُ الشَّرَّ".

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے قیس نے بیان کیا، ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے ساتھیوں نے (یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم نے) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھلائی کے حالات سیکھے اور میں نے برائی کے حالات دریافت کئے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3608

حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَقْتَتِلَ فِئَتَانِ دَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ".

ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھے ابوسلمہ نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک دو جماعتیں(مسلمانوں کی) آپس میں جنگ نہ کر لیں اور دونوں کا دعویٰ ایک ہو گا (کہ وہ حق پر ہیں)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3609

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هَمَّامٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَقْتَتِلَ فِئَتَانِ فَيَكُونَ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ دَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ قَرِيبًا مِنْ ثَلَاثِينَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ".

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو جماعتیں آپس میں جنگ نہ کر لیں۔ دونوں میں بڑی بھاری جنگ ہو گی۔ حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا نہ ہو لیں۔ ان میں ہر ایک کا یہی گمان ہو گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3610

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْسِمُ قِسْمًا أَتَاهُ ذُو الْخُوَيْصِرَةِ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ اعْدِلْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "وَيْلَكَ وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ قَدْ خِبْتَ وَخَسِرْتَ، ‏‏‏‏‏‏إِنْ لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ"فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي فِيهِ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "دَعْهُ فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ يُنْظَرُ إِلَى نَصْلِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى رِصَافِهِ فَمَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى نَضِيِّهِ وَهُوَ قِدْحُهُ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى قُذَذِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ آيَتُهُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ إِحْدَى عَضُدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ أَوْ مِثْلُ الْبَضْعَةِ تَدَرْدَرُ وَيَخْرُجُونَ عَلَى حِينِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو سَعِيدٍ:‏‏‏‏ فَأَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَشْهَدُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَاتَلَهُمْ وَأَنَا مَعَهُ فَأَمَرَ بِذَلِكَ الرَّجُلِ فَالْتُمِسَ فَأُتِيَ بِهِ حَتَّى نَظَرْتُ إِلَيْهِ عَلَى نَعْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي نَعَتَهُ.

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (جنگ حنین کا مال غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے اتنے میں بنی تمیم کا ایک شخص ذوالخویصرہ نامی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! انصاف سے کام لیجئے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افسوس! اگر میں ہی انصاف نہ کروں تو دنیا میں پھر کون انصاف کرے گا۔ اگر میں ظالم ہو جاؤں تب تو میری بھی تباہی اور بربادی ہو جائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کے بارے میں مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ اس کے جوڑ کے کچھ لوگ پیدا ہوں گے کہ تم اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابل ناچیز سمجھو گے۔ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے زور دار تیر جانور سے پار ہو جاتا ہے۔ اس تیر کے پھل کو اگر دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز (خون وغیرہ) نظر نہ آئے گی پھر اس کے پٹھے کو اگر دیکھا جائے تو چھڑ میں اس کے پھل کے داخل ہونے کی جگہ سے اوپر جو لگایا جاتا ہے تو وہاں بھی کچھ نہ ملے گا۔ اس کے نفی (نفی تیر میں لگائی جانے والی لکڑی کو کہتے ہیں) کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کچھ نشان نہیں ملے گا۔ اسی طرح اگر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا۔ حالانکہ گندگی اور خون سے وہ تیر گزرا ہے۔ ان کی علامت ایک کالا شخص ہو گا۔ اس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح (اٹھا ہوا) ہو گا یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہو گا اور حرکت کر رہا ہو گا۔ یہ لوگ مسلمانوں کے بہترین گروہ سے بغاوت کریں گے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کی تھی (یعنی خوارج سے) اس وقت میں بھی علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ اور انہوں نے اس شخص کو تلاش کرایا (جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گروہ کی علامت کے طور پر بتلایا تھا) آخر وہ لایا گیا۔ میں نے اسے دیکھا تو اس کا پورا حلیہ بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کئے ہوئے اوصاف کے مطابق تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3611

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَيْثَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَكْذِبَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ فَإِنَّ الْحَرْبَ خَدْعَةٌ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "يَأْتِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ حُدَثَاءُ الْأَسْنَانِ سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُونَ:‏‏‏‏ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ لَا يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی انہیں اعمش نے، انہیں خیثمہ نے، ان سے سوید بن غفلہ نے بیان کیا کہعلی رضی اللہ عنہ نے کہا، جب تم سے کوئی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے میں بیان کروں تو یہ سمجھو کہ میرے لیے آسمان سے گر جانا اس سے بہتر ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی جھوٹ باندھوں البتہ جب میں اپنی طرف سے کوئی بات تم سے کہوں تو لڑائی تو تدبیر اور فریب ہی کا نام ہے (اس میں کوئی بات بنا کر کہوں تو ممکن ہے)۔ دیکھو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ آخر زمانہ میں کچھ لوگ ایسے پیدا ہوں گے جو چھوٹے چھوٹے دانتوں والے، کم عقل اور بیوقوف ہوں گے۔ باتیں وہ کہیں گے جو دنیا کی بہترین بات ہو گی۔ لیکن اسلام سے اس طرح صاف نکل چکے ہوں گے جیسے تیر جانور کے پار نکل جاتا ہے۔ ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، تم انہیں جہاں بھی پاؤ قتل کر دو، کیونکہ ان کے قتل سے قاتل کو قیامت کے دن ثواب ملے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3612

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا قَيْسٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ شَكَوْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً لَهُ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْنَا:‏‏‏‏ لَهُ أَلَا تَسْتَنْصِرُ لَنَا أَلَا تَدْعُو اللَّهَ لَنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ قَبْلَكُمْ يُحْفَرُ لَهُ فِي الْأَرْضِ فَيُجْعَلُ فِيهِ فَيُجَاءُ بِالْمِنْشَارِ فَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ فَيُشَقُّ بِاثْنَتَيْنِ وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَيُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيدِ مَا دُونَ لَحْمِهِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ وَاللَّهِ لَيُتِمَّنَّ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ لَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ أَوِ الذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ وَلَكِنَّكُمْ تَسْتَعْجِلُونَ".

مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے، کہا ہم سے قیس نے بیان کیا، ان سے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ آپ اس وقت اپنی ایک چادر پر ٹیک دیئے کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ ہمارے لیے مدد کیوں نہیں طلب فرماتے۔ ہمارے لیے اللہ سے دعا کیوں نہیں مانگتے (ہم کافروں کی ایذا دہی سے تنگ آ چکے ہیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ایمان لانے کی سزا میں) تم سے پہلی امتوں کے لوگوں کے لیے گڑھا کھودا جاتا اور انہیں اس میں ڈال دیا جاتا۔ پھر ان کے سر پر آرا رکھ کر ان کے دو ٹکڑے کر دیئے جاتے پھر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتے۔ لوہے کے کنگھے ان کے گوشت میں دھنسا کر ان کی ہڈیوں اور پٹھوں پر پھیرے جاتے پھر بھی وہ اپنا ایمان نہ چھوڑتے۔ اللہ کی قسم یہ امر (اسلام) بھی کمال کو پہنچے گا اور ایک زمانہ آئے گا کہ ایک سوار مقام صنعاء سے حضر موت تک سفر کرے گا (لیکن راستوں کے پرامن ہونے کی وجہ سے اسے اللہ کے سوا اور کسی کا ڈر نہیں ہو گا۔ یا صرف بھیڑئیے کا خوف ہو گا کہ کہیں اس کی بکریوں کو نہ کھا جائے لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3613

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ سَعْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنِي مُوسَى بْنُ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَقَدَ ثَابِتَ بْنَ قَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا أَعْلَمُ لَكَ عِلْمَهُ فَأَتَاهُ فَوَجَدَهُ جَالِسًا فِي بَيْتِهِ مُنَكِّسًا رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "مَا شَأْنُكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ شَرٌّ كَانَ يَرْفَعُ صَوْتَهُ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ فَأَتَى الرَّجُلُ فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مُوسَى بْنُ أَنَسٍ:‏‏‏‏ فَرَجَعَ الْمَرَّةَ الْآخِرَةَ بِبِشَارَةٍ عَظِيمَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اذْهَبْ إِلَيْهِ فَقُلْ لَهُ إِنَّكَ لَسْتَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَلَكِنْ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ".

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ازہر بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا، انہیں موسیٰ بن انس نے خبر دی اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دن ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نہیں ملے تو ایک صحابی نے کہا: یا رسول اللہ! میں آپ کے لیے ان کی خبر لاتا ہوں۔ چنانچہ وہ ان کے یہاں آئے تو دیکھا کہ اپنے گھر میں سر جھکائے بیٹھے ہیں، انہوں نے پوچھا کہ کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا کہ برا حال ہے۔ ان کی عادت تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اونچی آواز میں بولا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا اسی لیے میرا عمل غارت ہو گیا اور میں دوزخیوں میں ہو گیا ہوں۔ وہ صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ ثابت رضی اللہ عنہ یوں کہہ رہے ہیں۔ موسیٰ بن انس نے بیان کیا، لیکن دوسری مرتبہ وہی صحابی ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس ایک بڑی خوشخبری لے کر واپس ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا کہ ثابت کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ اہل جہنم میں سے نہیں ہیں بلکہ وہ اہل جنت میں سے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3614

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَرَأَ رَجُلٌ الْكَهْفَ وَفِي الدَّارِ الدَّابَّةُ فَجَعَلَتْ تَنْفِرُ فَسَلَّمَ فَإِذَا ضَبَابَةٌ أَوْ سَحَابَةٌ غَشِيَتْهُ فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ"اقْرَأْ فُلَانُ فَإِنَّهَا السَّكِينَةُ نَزَلَتْ لِلْقُرْآنِ أَوْ تَنَزَّلَتْ لِلْقُرْآنِ".

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے ان سے ابواسحٰق نے اور انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک صحابی (اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ) نے (نماز میں) سورۃ الکہف کی تلاوت کی۔ اسی گھر میں گھوڑا بندھا ہوا تھا، گھوڑے نے اچھلنا کودنا شروع کر دیا۔ (اسید نے ادھر خیال نہ کیا اس کو اللہ کے سپرد کیا) اس کے بعد جب انہوں نے سلام پھیرا تو دیکھا کہ بادل کے ایک ٹکڑے نے ان کے سارے گھر پر سایہ کر رکھا ہے۔ اس واقعہ کا ذکر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن پڑھتا ہی رہ کیونکہ یہ «سكينة» ہے جو قرآن کی وجہ سے نازل ہوئی یا (اس کے بجائے راوی نے) «تنزلت للقرآن» کے الفاظ کہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3615

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ أَبُو الْحَسَنِ الْحَرَّانِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ جَاءَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى أَبِي فِي مَنْزِلِهِ فَاشْتَرَى مِنْهُ رَحْلًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ"لِعَازِبٍ ابْعَثْ ابْنَكَ يَحْمِلْهُ مَعِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَحَمَلْتُهُ مَعَهُ وَخَرَجَ أَبِي يَنْتَقِدُ ثَمَنَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ أَبِي:‏‏‏‏ يَا أَبَا بَكْرٍ حَدِّثْنِي كَيْفَ صَنَعْتُمَا حِينَ سَرَيْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ أَسْرَيْنَا لَيْلَتَنَا وَمِنَ الْغَدِ حَتَّى قَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ وَخَلَا الطَّرِيقُ لَا يَمُرُّ فِيهِ أَحَدٌ فَرُفِعَتْ لَنَا صَخْرَةٌ طَوِيلَةٌ لَهَا ظِلٌّ لَمْ تَأْتِ عَلَيْهِ الشَّمْسُ فَنَزَلْنَا عِنْدَهُ وَسَوَّيْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانًا بِيَدِي يَنَامُ عَلَيْهِ وَبَسَطْتُ فِيهِ فَرْوَةً، ‏‏‏‏‏‏وَقُلْتُ:‏‏‏‏ نَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَأَنَا أَنْفُضُ لَكَ مَا حَوْلَكَ فَنَامَ وَخَرَجْتُ أَنْفُضُ مَا حَوْلَهُ فَإِذَا أَنَا بِرَاعٍ مُقْبِلٍ بِغَنَمِهِ إِلَى الصَّخْرَةِ يُرِيدُ مِنْهَا مِثْلَ الَّذِي أَرَدْنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ لِمَنْ أَنْتَ يَا غُلَامُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ أَوْ مَكَّةَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ أَفِي غَنَمِكَ لَبَنٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ أَفَتَحْلُبُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ شَاةً، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ انْفُضْ الضَّرْعَ مِنَ التُّرَابِ وَالشَّعَرِ وَالْقَذَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَرَأَيْتُ الْبَرَاءَ يَضْرِبُ إِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى يَنْفُضُ فَحَلَبَ فِي قَعْبٍ كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ وَمَعِي إِدَاوَةٌ حَمَلْتُهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْتَوِي مِنْهَا يَشْرَبُ وَيَتَوَضَّأُ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُ فَوَافَقْتُهُ حِينَ اسْتَيْقَظَ فَصَبَبْتُ مِنَ الْمَاءِ عَلَى اللَّبَنِ حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ اشْرَبْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَلَمْ يَأْنِ لِلرَّحِيلِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَارْتَحَلْنَا بَعْدَ مَا مَالَتِ الشَّمْسُ وَاتَّبَعَنَا سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أُتِينَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَدَعَا عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَارْتَطَمَتْ بِهِ فَرَسُهُ إِلَى بَطْنِهَا أُرَى فِي جَلَدٍ مِنَ الْأَرْضِ شَكَّ زُهَيْرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي أُرَاكُمَا قَدْ دَعَوْتُمَا عَلَيَّ فَادْعُوَا لِي فَاللَّهُ لَكُمَا أَنْ أَرُدَّ عَنْكُمَا الطَّلَبَ فَدَعَا لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَجَا فَجَعَلَ لَا يَلْقَى أَحَدًا إِلَّا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَفَيْتُكُمْ مَا هُنَا فَلَا يَلْقَى أَحَدًا إِلَّا رَدَّهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَوَفَى لَنَا".

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے احمد بن یزید بن ابراہیم ابوالحسن حرانی نے، کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے، کہا ہم سے ابواسحٰق نے بیان کیا اور انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے والد کے پاس ان کے گھر آئے اور ان سے ایک پالان خریدا۔ پھر انہوں نے میرے والد سے کہا کہ اپنے بیٹے کے ذریعہ اسے میرے ساتھ بھیج دو۔ براء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا چنانچہ میں اس کجاوے کو اٹھا کر آپ کے ساتھ چلا اور میرے والد اس کی قیمت کے روپے پرکھوانے لگے۔ میرے والد نے ان سے پوچھا اے ابوبکر! مجھے وہ واقعہ سنائیے جب آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار ثور سے ہجرت کی تھی تو آپ دونوں نے وہ وقت کیسے گزارا تھا؟ اس پر انہوں نے بیان کیا کہ جی ہاں، رات بھر تو ہم چلتے رہے اور دوسرے دن صبح کو بھی لیکن جب دوپہر کا وقت ہوا اور راستہ بالکل سنسان پڑ گیا کہ کوئی بھی آدمی گزرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا تھا تو ہمیں ایک لمبی چٹان دکھائی دی، اس کے سائے میں دھوپ نہیں تھی۔ ہم وہاں اتر گئے اور میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک جگہ اپنے ہاتھ سے ٹھیک کر دی اور ایک چادر وہاں بچھا دی۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ یہاں آرام فرمائیں میں نگرانی کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور میں چاروں طرف حالات دیکھنے کے لیے نکلا۔ اتفاق سے مجھے ایک چرواہا ملا۔ وہ بھی اپنی بکریوں کے ریوڑ کو اسی چٹان کے سائے میں لانا چاہتا تھا جس کے تلے میں نے وہاں پڑاؤ ڈالا تھا۔ وہی اس کا بھی ارادہ تھا، میں نے اس سے پوچھا کہ تو کس قبیلے سے ہے؟ اس نے بتایا کہ مدینہ یا (راوی نے کہا کہ) مکہ کے فلاں شخص سے، میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تیری بکریوں سے دودھ مل سکتا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں۔ میں نے پوچھا کیا ہمارے لیے تو دودھ نکال سکتا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ وہ ایک بکری پکڑ کے لایا۔ میں نے اس سے کہا کہ پہلے تھن کو مٹی، بال اور دوسری گندگیوں سے صاف کر لے۔ ابواسحٰق راوی نے کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مار کر تھن کو جھاڑنے کی صورت بیان کی۔ اس نے لکڑی کے ایک پیالے میں دودھ نکالا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک برتن اپنے ساتھ رکھ لیا تھا۔ آپ اس سے پانی پیا کرتے تھے اور وضو بھی کر لیتے تھے۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا (آپ سو رہے تھے) میں آپ کو جگانا پسند نہیں کرتا تھا۔ لیکن بعد میں جب میں آیا تو آپ بیدار ہو چکے تھے۔ میں نے پہلے دودھ کے برتن پر پانی بہایا جب اس کے نیچے کا حصہ ٹھنڈا ہو گیا تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! دودھ پی لیجئے، انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمایا جس سے مجھے خوشی حاصل ہوئی۔ پھر آپ نے فرمایا کیا ابھی کوچ کرنے کا وقت نہیں آیا؟ میں نے عرض کیا کہ آ گیا ہے۔ انہوں نے کہا: جب سورج ڈھل گیا تو ہم نے کوچ کیا۔ بعد میں سراقہ بن مالک ہمارا پیچھا کرتا ہوا یہیں پہنچا۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! اب تو یہ ہمارے قریب ہی پہنچ گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غم نہ کرو۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ آپ نے پھر اس کے لیے بددعا کی اور اس کا گھوڑا اسے لیے ہوئے پیٹ تک زمین میں دھنس گیا۔ میرا خیال ہے کہ زمین بڑی سخت تھی۔ یہ شک (راوی حدیث) زہیر کو تھا۔ سراقہ نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ آپ لوگوں نے میرے لیے بددعا کی ہے۔ اگر اب آپ لوگ میرے لیے (اس مصیبت سے نجات کی) دعا کر دیں تو اللہ کی قسم میں آپ لوگوں کی تلاش میں آنے والے تمام لوگوں کو واپس لوٹا دوں گا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دعا کی تو وہ نجات پا گیا۔ پھر تو جو بھی اسے راستے میں ملتا اس سے وہ کہتا تھا کہ میں بہت تلاش کر چکا ہوں۔ قطعی طور پر وہ ادھر نہیں ہیں۔ اس طرح جو بھی ملتا اسے وہ واپس اپنے ساتھ لے جاتا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس نے ہمارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3616

حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُخْتَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِكْرِمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أَعْرَابِيٍّ يَعُودُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَى مَرِيضٍ يَعُودُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ طَهُورٌ كَلَّا بَلْ هِيَ حُمَّى تَفُورُ أَوْ تَثُورُ عَلَى شَيْخٍ كَبِيرٍ تُزِيرُهُ الْقُبُورَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَعَمْ إِذًا".

ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو فرماتے کوئی حرج نہیں، ان شاءاللہ یہ بخار گناہوں کو دھو دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سے بھی یہی فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ان شاءاللہ (یہ بخار) گناہوں کو دھو دے گا۔ اس نے اس پر کہا: آپ کہتے ہیں گناہوں کو دھونے والا ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ تو نہایت شدید قسم کا بخار ہے یا (راوی نے) «تثور» کہا (دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے) کہ بخار ایک بوڑھے کھوسٹ پر جوش مار رہا ہے جو قبر کی زیارت کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تو پھر یوں ہی ہو گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3617

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كَانَ رَجُلٌ نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمَ وَقَرَأَ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ فَكَانَ يَكْتُبُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَادَ نَصْرَانِيًّا فَكَانَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ مَا يَدْرِي مُحَمَّدٌ إِلَّا مَا كَتَبْتُ لَهُ فَأَمَاتَهُ اللَّهُ فَدَفَنُوهُ فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الْأَرْضُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ هَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا فَأَلْقَوْهُ فَحَفَرُوا لَهُ فَأَعْمَقُوا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الْأَرْضُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ هَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ فَأَلْقَوْهُ فَحَفَرُوا لَهُ وَأَعْمَقُوا لَهُ فِي الْأَرْضِ مَا اسْتَطَاعُوا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الْأَرْضُ فَعَلِمُوا أَنَّهُ لَيْسَ مِنَ النَّاسِ فَأَلْقَوْهُ".

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا کہا ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص پہلے عیسائی تھا۔ پھر وہ اسلام میں داخل ہو گیا تھا۔ اس نے سورۃ البقرہ اور آل عمران پڑھ لی تھی اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی بن گیا لیکن پھر وہ شخص مرتد ہو کر عیسائی ہو گیا اور کہنے لگا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے جو کچھ میں نے لکھ دیا ہے اس کے سوا انہیں اور کچھ بھی معلوم نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی موت واقع ہو گئی اور اس کے آدمیوں نے اسے دفن کر دیا۔ جب صبح ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ اس کی لاش قبر سے نکل کر زمین کے اوپر پڑی ہے۔ عیسائی لوگوں نے کہا کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں کا کام ہے۔ چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا اس لیے انہوں نے اس کی قبر کھودی ہے اور لاش کو باہر نکال کر پھینک دیا ہے۔ چنانچہ دوسری قبر انہوں نے کھودی جو بہت زیادہ گہری تھی۔ لیکن جب صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا اس لیے اس کی قبر کھود کر انہوں نے لاش باہر پھینک دی ہے۔ پھر انہوں نے قبر کھودی اور جتنی گہری ان کے بس میں تھی کر کے اسے اس کے اندر ڈال دیا لیکن صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی۔ اب انہیں یقین آیا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے (بلکہ یہ میت اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار ہے) چنانچہ انہوں نے اسے یونہی (زمین پر) ڈال دیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3618

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَأَخْبَرَنِي ابْنُ الْمُسَيَّبِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَأَنَّهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِذَا هَلَكَ كِسْرَى فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَتُنْفِقُنَّ كُنُوزَهُمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ".

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کسریٰ (شاہ ایران) ہلاک ہو جائے گا تو پھر کوئی کسریٰ پیدا نہیں ہو گا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے تم ان کے خزانے اللہ کے راستے میں ضرور خرچ کرو گے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3619

حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رَفَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِذَا هَلَكَ كِسْرَى فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ وَذَكَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ لَتُنْفَقَنَّ كُنُوزُهُمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ".

ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے اور ان سے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کسریٰ ہلاک ہوا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ پیدا نہیں ہو گا اور جب قیصر ہلاک ہوا تو کوئی قیصر پھر پیدا نہیں ہو گا اور راوی نے (پہلی حدیث کی طرح اس حدیث کو بھی بیان کیا اور) کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان دونوں کے خزانے اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3620

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَدِمَ مُسَيْلِمَةُ الْكَذَّابُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنْ جَعَلَ لِي مُحَمَّدٌ الْأَمْرَ مِنْ بَعْدِهِ تَبِعْتُهُ وَقَدِمَهَا فِي بَشَرٍ كَثِيرٍ مِنْ قَوْمِهِ فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ وَفِي يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِطْعَةُ جَرِيدٍ حَتَّى وَقَفَ عَلَى مُسَيْلِمَةَ فِي أَصْحَابِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَوْ سَأَلْتَنِي هَذِهِ الْقِطْعَةَ مَا أَعْطَيْتُكَهَا وَلَنْ تَعْدُوَ أَمْرَ اللَّهِ فِيكَ وَلَئِنْ أَدْبَرْتَ ليَعْقِرَنَّكَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي لَأَرَاكَ الَّذِي أُرِيتُ فِيكَ مَا رَأَيْتُ".

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن ابی حسین نے، ان سے نافع بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسیلمہ کذاب مدینہ میں آیا اور یہ کہنے لگا کہ اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) امر (یعنی خلافت) کو اپنے بعد مجھے سونپ دیں تو میں ان کی اتباع کے لیے تیار ہوں۔ مسیلمہ اپنے بہت سے مریدوں کو ساتھ لے کر مدینہ آیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس (اسے سمجھانے کے لیے) تشریف لے گئے۔ آپ کے ساتھ ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ تھے اور آپ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک چھڑی تھی۔ آپ وہاں ٹھہر گئے جہاں مسیلمہ اپنے آدمیوں کے ساتھ موجود تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا اگر تو مجھ سے چھڑی بھی مانگے تو میں تجھے نہیں دے سکتا (خلافت تو بڑی چیز ہے) اور پروردگار کی مرضی کو تو ٹال نہیں سکتا اگر تو اسلام سے پیٹھ پھیرے گا تو اللہ تجھ کو تباہ کر دے گا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ تو وہی ہے جو مجھے (خواب میں) دکھایا گیا تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3621

فَأَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ :‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ فِي يَدَيَّ سِوَارَيْنِ مِنْ ذَهَبٍ فَأَهَمَّنِي شَأْنُهُمَا، ‏‏‏‏‏‏فَأُوحِيَ إِلَيَّ فِي الْمَنَامِ أَنِ انْفُخْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏فَنَفَخْتُهُمَا فَطَارَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَوَّلْتُهُمَا كَذَّابَيْنِ يَخْرُجَانِ بَعْدِي فَكَانَ أَحَدُهُمَا الْعَنْسِيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَالْآخَرُ مُسَيْلِمَةَ الْكَذَّابَ صَاحِبَ الْيَمَامَةِ".

(ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ) مجھے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا میں سویا ہوا تھا کہ میں نے (خواب میں) سونے کے دو کنگن اپنے ہاتھوں میں دیکھے۔ مجھے اس خواب سے بہت فکر ہوا، پھر خواب میں ہی وحی کے ذریعہ مجھے بتلایا گیا کہ میں ان پر پھونک ماروں۔ چنانچہ جب میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے۔ میں نے اس سے یہ تعبیر لی کہ میرے بعد جھوٹے نبی ہوں گے۔ پس ان میں سے ایک تو اسود عنسی ہے اور دوسرا یمامہ کا مسیلمہ کذاب تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3622

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى أُرَاهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أُهَاجِرُ مِنْ مَكَّةَ إِلَى أَرْضٍ بِهَا نَخْلٌ فَذَهَبَ وَهَلِي إِلَى أَنَّهَا الْيَمَامَةُ أَوْ هَجَرُ فَإِذَا هِيَ الْمَدِينَةُ يَثْرِبُ وَرَأَيْتُ فِي رُؤْيَايَ هَذِهِ أَنِّي هَزَزْتُ سَيْفًا فَانْقَطَعَ صَدْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا هُوَ مَا أُصِيبَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ أُحُدٍ ثُمَّ هَزَزْتُهُ بِأُخْرَى فَعَادَ أَحْسَنَ مَا كَانَ فَإِذَا هُوَ مَا جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنْ الْفَتْحِ وَاجْتِمَاعِ الْمُؤْمِنِينَ وَرَأَيْتُ فِيهَا بَقَرًا وَاللَّهُ خَيْرٌ فَإِذَا هُمُ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَ أُحُدٍ وَإِذَا الْخَيْرُ مَا جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنَ الْخَيْرِ وَثَوَابِ الصِّدْقِ الَّذِي آتَانَا اللَّهُ بَعْدَ يَوْمِ بَدْرٍ".

مجھ سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ بن ابی بردہ نے، ان سے ان کے دادا ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے، میں سمجھتا ہوں (یہ امام بخاری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ) محمد بن علاء نے یوں کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جہاں کھجور کے باغات ہیں۔ اس پر میرا ذہن ادھر گیا کہ یہ مقام یمامہ یا ہجر ہو گا۔ لیکن وہ یثرب مدینہ منورہ ہے اور اسی خواب میں میں نے دیکھا کہ میں نے تلوار ہلائی تو وہ بیچ میں سے ٹوٹ گئی۔ یہ اس مصیبت کی طرف اشارہ تھا جو احد کی لڑائی میں مسلمانوں کو اٹھانی پڑی تھی۔ پھر میں نے دوسری مرتبہ اسے ہلایا تو وہ پہلے سے بھی اچھی صورت میں ہو گئی۔ یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کی فتح دی اور مسلمان سب اکٹھے ہو گئے۔ میں نے اسی خواب میں گائیں دیکھیں اور اللہ تعالیٰ کا جو کام ہے وہ بہتر ہے۔ ان گایوں سے ان مسلمانوں کی طرف اشارہ تھا جو احد کی لڑائی میں شہید کئے گئے اور خیر و بھلائی وہ تھی جو ہمیں اللہ تعالیٰ نے خیر و سچائی کا بدلہ بدر کی لڑائی کے بعد عطا فرمایا تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3623

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فِرَاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَسْرُوقٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "أَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ تَمْشِي كَأَنَّ مِشْيَتَهَا مَشْيُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَرْحَبًا بِابْنَتِي ثُمَّ أَجْلَسَهَا عَنْ يَمِينِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَسَرَّ إِلَيْهَا حَدِيثًا فَبَكَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ لَهَا لِمَ تَبْكِينَ ثُمَّ أَسَرَّ إِلَيْهَا حَدِيثًا فَضَحِكَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ فَرَحًا أَقْرَبَ مِنْ حُزْنٍ فَسَأَلْتُهَا عَمَّا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا، ان سے فراس نے، ان سے عامر نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں، ان کی چال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سے بڑی مشابہت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹی آؤ مرحبا! اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی دائیں طرف یا بائیں طرف بٹھایا، پھر ان کے کان میں آپ نے چپکے سے کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں، میں نے ان سے کہا کہ آپ روتی کیوں ہو؟ پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ ہنس دیں۔ میں نے ان سے کہا آج غم کے فوراً بعد ہی خوشی کی جو کیفیت میں نے آپ کے چہرے پر دیکھی وہ پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں میں آپ کے راز کو کسی پر نہیں کھول سکتی۔ چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پوچھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3624

فَقَالَتْ:‏‏‏‏ مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ أَسَرَّ إِلَيَّ إِنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُنِي الْقُرْآنَ كُلَّ سَنَةٍ مَرَّةً وَإِنَّهُ عَارَضَنِي الْعَامَ مَرَّتَيْنِ وَلَا أُرَاهُ إِلَّا حَضَرَ أَجَلِي وَإِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِ بَيْتِي لَحَاقًا بِي فَبَكَيْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَوْ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ فَضَحِكْتُ لِذَلِكَ".

تو انہوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کان میں کہا تھا کہ جبرائیل علیہ السلام ہر سال قرآن مجید کا ایک دور کیا کرتے تھے، لیکن اس سال انہوں نے دو مرتبہ دور کیا ہے، مجھے یقین ہے کہ اب میری موت قریب ہے اور میرے گھرانے میں سب سے پہلے مجھ سے آ ملنے والی تم ہو گی۔ میں (آپ کی اس خبر پر) رونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس پر راضی نہیں کہ جنت کی عورتوں کی سردار بنو گی یا (آپ نے فرمایا کہ) مومنہ عورتوں کی، تو اس پر میں ہنسی تھی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3625

حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ ابْنَتَهُ فِي شَكْوَاهُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ فَسَارَّهَا بِشَيْءٍ فَبَكَتْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ دَعَاهَا فَسَارَّهَا فَضَحِكَتْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَسَأَلْتُهَا عَنْ ذَلِكَ.

ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ مرض میں اپنی صاحب زادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور چپکے سے کوئی بات ان سے فرمائی تو وہ رونے لگیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور چپکے سے پھر کوئی بات فرمائی تو وہ ہنسیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اس کے متعلق پوچھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3626

فَقَالَتْ:‏‏‏‏ سَارَّنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ يُقْبَضُ فِي وَجَعِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ فَبَكَيْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَارَّنِي فَأَخْبَرَنِي أَنِّي أَوَّلُ أَهْلِ بَيْتِهِ أَتْبَعُهُ فَضَحِكْتُ".

تو انہوں نے بتایا کہ پہلی مرتبہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے آہستہ سے گفتگو کی تھی تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آپ کی اس مرض میں وفات ہو جائے گی جس میں واقعی آپ کی وفات ہوئی۔ میں اس پر رو پڑی۔ پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ سے مجھ سے جو بات کہی اس میں آپ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں، میں سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملوں گی۔ میں اس پر ہنسی تھی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3627

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ أَبِي بِشْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُدْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ"عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ إِنَّ لَنَا أَبْنَاءً مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ مِنْ حَيْثُ تَعْلَمُ فَسَأَلَ عُمَرُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ سورة النصر آية 1 فَقَالَ:‏‏‏‏ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَهُ إِيَّاهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَعْلَمُ".

ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابی بشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب ابن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنے پاس بٹھاتے تھے۔ اس پر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی کہ ان جیسے تو ہمارے لڑکے بھی ہیں۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہ محض ان کے علم کی وجہ سے ہے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت «إذا جاء نصر الله والفتح‏» کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تھی جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جو تم نے سمجھا ہے میں بھی وہی سمجھتا ہوں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3628

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ حَنْظَلَةَ بْنِ الْغَسِيلِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ بِمِلْحَفَةٍ قَدْ عَصَّبَ بِعِصَابَةٍ دَسْمَاءَ حَتَّى جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ النَّاسَ يَكْثُرُونَ وَيَقِلُّ الْأَنْصَارُ حَتَّى يَكُونُوا فِي النَّاسِ بِمَنْزِلَةِ الْمِلْحِ فِي الطَّعَامِ فَمَنْ وَلِيَ مِنْكُمْ شَيْئًا يَضُرُّ فِيهِ قَوْمًا وَيَنْفَعُ فِيهِ آخَرِينَ فَلْيَقْبَلْ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيَتَجَاوَزْ عَنْ مُسِيئِهِمْ فَكَانَ آخِرَ مَجْلِسٍ جَلَسَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن سلیمان بن حنظلہ بن غسیل نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ مرض الوفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے، آپ ایک چکنے کپڑے سے سر مبارک پر پٹی باندھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں منبر پر تشریف فرما ہوئے پھر جیسے ہونی چاہیے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا: امابعد: (آنے والے دور میں) دوسرے لوگوں کی تعداد بہت بڑھ جائے گی لیکن انصار کم ہوتے جائیں گے اور ایک زمانہ آئے گا کہ دوسروں کے مقابلے میں ان کی تعداد اتنی کم ہو جائے گی جیسے کھانے میں نمک ہوتا ہے۔ پس اگر تم میں سے کوئی شخص کہیں کا حاکم بنے اور اپنی حکومت کی وجہ سے وہ کسی کو نقصان اور نفع بھی پہنچا سکتا ہو تو اسے چاہیے کہ انصار کے نیکوں (کی نیکیوں)کو قبول کرے اور جو برے ہوں ان سے درگزر کر دیا کرے۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری مجلس وعظ تھی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3629

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَسَنِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَخْرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ الْحَسَنَ فَصَعِدَ بِهِ عَلَى الْمِنْبَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ".

مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حسین جعفی نے بیان کیا، ان سے ابوموسیٰ نے، ان سے امام حسن بصری نے اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسن رضی اللہ عنہ کو ایک دن ساتھ لے کر باہر تشریف لائے اور منبر پر ان کو لے کر چڑھ گئے پھر فرمایا میرا یہ بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں ملاپ کرا دے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3630

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "نَعَى جَعْفَرًا وَزَيْدًا قَبْلَ أَنْ يَجِيءَ خَبَرُهُمْ وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ".

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر بن ابی طالب اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کی شہادت کی خبر پہلے ہی صحابہ کو سنا دی تھی، اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3631

حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "هَلْ لَكُمْ مِنْ أَنْمَاطٍ ؟، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ وَأَنَّى يَكُونُ لَنَا الْأَنْمَاطُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَا إِنَّهُ سَيَكُونُ لَكُمُ الْأَنْمَاطُ فَأَنَا أَقُولُ لَهَا يَعْنِي امْرَأَتَهُ أَخِّرِي عَنِّي أَنْمَاطَكِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَقُولُ:‏‏‏‏ أَلَمْ يَقُلِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهَا سَتَكُونُ لَكُمُ الْأَنْمَاطُ فَأَدَعُهَا".

ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ (ان کی شادی کے موقع پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا تمہارے پاس قالین ہیں؟ میں نے عرض کیا، ہمارے پاس قالین کہاں؟ (ہم غریب لوگ ہیں) اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یاد رکھو ایک وقت آئے گا کہ تمہارے پاس عمدہ عمدہ قالین ہوں گے۔ اب جب میں اس سے (اپنی بیوی سے) کہتا ہوں کہ اپنے قالین ہٹا لے تو وہ کہتی ہے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے نہیں فرمایا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب تمہارے پاس قالین ہوں گے۔ چنانچہ میں انہیں وہیں رہنے دیتا ہوں (اور چپ ہو جاتا ہوں)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3632

حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ انْطَلَقَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ مُعْتَمِرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَنَزَلَ عَلَى أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ أَبِي صَفْوَانَ وَكَانَ أُمَيَّةُ إِذَا انْطَلَقَ إِلَى الشَّأْمِ فَمَرَّ بِالْمَدِينَةِ نَزَلَ عَلَى سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أُمَيَّةُ لِسَعْدٍ انْتَظِرْ حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ النَّهَارُ وَغَفَلَ النَّاسُ انْطَلَقْتُ فَطُفْتُ فَبَيْنَا سَعْدٌ يَطُوفُ إِذَا أَبُو جَهْلٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا الَّذِي يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ سَعْدٌ:‏‏‏‏ أَنَا سَعْدٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ:‏‏‏‏ تَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ آمِنًا وَقَدْ آوَيْتُمْ مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ فَتَلَاحَيَا بَيْنَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أُمَيَّةُ لسَعْدٍ لَا تَرْفَعْ صَوْتَكَ عَلَى أَبِي الْحَكَمِ فَإِنَّهُ سَيِّدُ أَهْلِ الْوَادِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمّ قَالَ:‏‏‏‏ سَعْدٌ وَاللَّهِ لَئِنْ مَنَعْتَنِي أَنْ أَطُوفَ بِالْبَيْتِ لَأَقْطَعَنَّ مَتْجَرَكَ بِالشَّامِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَجَعَلَ أُمَيَّةُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ لِسَعْدٍ لَا تَرْفَعْ صَوْتَكَ وَجَعَلَ يُمْسِكُهُ فَغَضِبَ سَعْدٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ دَعْنَا عَنْكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزْعُمُ أَنَّهُ قَاتِلُكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِيَّايَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا يَكْذِبُ مُحَمَّدٌ إِذَا حَدَّثَ فَرَجَعَ إِلَى امْرَأَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَمَا تَعْلَمِينَ مَا قَالَ لِي:‏‏‏‏ أَخِي الْيَثْرِبِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَمَا قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ زَعَمَ أَنَّه سَمِعَ مُحَمَّدًا يَزْعُمُ أَنَّهُ قَاتِلِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَوَاللَّهِ مَا يَكْذِبُ مُحَمَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَلَمَّا خَرَجُوا إِلَى بَدْرٍ وَجَاءَ الصَّرِيخُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ لَهُ امْرَأَتُهُ أَمَا ذَكَرْتَ مَا قَالَ:‏‏‏‏ لَكَ أَخُوكَ الْيَثْرِبِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَرَادَ أَنْ لَا يَخْرُجَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَهُ أَبُو جَهْلٍ إِنَّكَ مِنْ أَشْرَافِ الْوَادِي فَسِرْ يَوْمًا أَوْ يَوْمَيْنِ فَسَارَ مَعَهُمْ فَقَتَلَهُ اللَّهُ".

ہم سے احمد بن اسحٰق نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے، ان سے عمرو بن میمون نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ عمرہ کی نیت سے (مکہ)آئے اور ابوصفوان امیہ بن خلف کے یہاں اترے۔ امیہ بھی شام جاتے ہوئے (تجارت وغیرہ کے لیے) جب مدینہ سے گزرتا تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے یہاں قیام کیا کرتا تھا۔ امیہ نے سعد رضی اللہ عنہ سے کہا: ابھی ٹھہرو، جب دوپہر کا وقت ہو جائے اور لوگ غافل ہو جائیں (تب طواف کرنا کیونکہ مکہ کے مشرک مسلمانوں کے دشمن تھے) سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، چنانچہ میں نے جا کر طواف شروع کر دیا۔ سعد رضی اللہ عنہ ابھی طواف کر ہی رہے تھے کہ ابوجہل آ گیا اور کہنے لگا، یہ کعبہ کا طواف کون کر رہا ہے؟ سعد رضی اللہ عنہ بولے کہ میں سعد ہوں۔ ابوجہل بولا: تم کعبہ کا طواف خوب امن سے کر رہے ہو حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں ٹھیک ہے۔ اس طرح دونوں میں بات بڑھ گئی۔ پھر امیہ نے سعد رضی اللہ عنہ سے کہا: ابوالحکم (ابوجہل) کے سامنے اونچی آواز سے نہ بولو۔ وہ اس وادی (مکہ) کا سردار ہے۔ اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم اگر تم نے مجھے بیت اللہ کے طواف سے روکا تو میں بھی تمہاری شام کی تجارت خاک میں ملا دوں گا (کیونکہ شام جانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے جو مدینہ سے جاتا ہے) بیان کیا کہ امیہ برابر سعد رضی اللہ عنہ سے یہی کہتا رہا کہ اپنی آواز بلند نہ کرو اور انہیں (مقابلہ سے)روکتا رہا۔ آخر سعد رضی اللہ عنہ کو اس پر غصہ آ گیا اور انہوں نے امیہ سے کہا۔ چل پرے ہٹ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تیرے متعلق سنا ہے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ تجھ کو ابوجہل ہی قتل کرائے گا۔ امیہ نے پوچھا: مجھے؟ سعد رضی اللہ عنہ کہا: ہاں تجھ کو۔ تب تو امیہ کہنے لگا۔ اللہ کی قسم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جب کوئی بات کہتے ہیں تو وہ غلط نہیں ہوتی پھر وہ اپنی بیوی کے پاس آیا اور اس نے اس سے کہا تمہیں معلوم نہیں، میرے یثربی بھائی نے مجھے کیا بات بتائی ہے؟ اس نے پوچھا: انہوں نے کیا کہا؟ امیہ نے بتایا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ چکے ہیں کہ ابوجہل مجھ کو قتل کرائے گا۔ وہ کہنے لگی۔ اللہ کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم غلط بات زبان سے نہیں نکالتے۔ پھر ایسا ہوا کہ اہل مکہ بدر کی لڑائی کے لیے روانہ ہونے لگے اور امیہ کو بھی بلانے والا آیا تو امیہ سے اس کی بیوی نے کہا، تمہیں یاد نہیں رہا تمہارا یثربی بھائی تمہیں کیا خبر دے گیا تھا۔ بیان کیا کہ اس یاددہانی پر امیہ نے چاہا کہ اس جنگ میں شرکت نہ کرے۔ لیکن ابوجہل نے کہا: تم وادی مکہ کے رئیس ہو۔ اس لیے کم از کم ایک یا دو دن کے لیے ہی تمہیں چلنا پڑے گا۔ اس طرح وہ ان کے ساتھ جنگ میں شرکت کے لیے نکلا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو قتل کرا دیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3633

حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ النَّرْسِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أُنْبِئْتُ أَنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أُمُّ سَلَمَةَ فَجَعَلَ يُحَدِّثُ ثُمَّ قَامَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لِأُمِّ سَلَمَةَ مَنْ هَذَا أَوْ كَمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَتْ هَذَا دِحْيَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ:‏‏‏‏ ايْمُ اللَّهِ مَا حَسِبْتُهُ إِلَّا إِيَّاهُ حَتَّى سَمِعْتُ خُطْبَةَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْبِرُ جِبْرِيلَ أَوْ كَمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ لِأَبِي عُثْمَانَ:‏‏‏‏ مِمَّنْ سَمِعْتَ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مِنْأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ".

ہم سے عباس بن ولید نرسی نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا، ان سے ابوعثمان نے بیان کیا کہ مجھے یہ بات معلوم کرائی گئی کہ جبرائیل علیہ السلام ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے باتیں کرتے رہے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیٹھی ہوئی تھیں۔ جب جبرائیل علیہ السلام چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ سے فرمایا: معلوم ہے یہ کون صاحب تھے؟ یا ایسے ہی الفاظ ارشاد فرمائے۔ ابوعثمان نے بیان کیا کہ ام سلمہ نے جواب دیا کہ یہ دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ تھے۔ ام سلمہ نے بیان کیا اللہ کی قسم میں سمجھے بیٹھی تھی کہ وہ دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ ہیں۔ آخر جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سنا جس میں آپ جبرائیل علیہ السلام (کی آمد) کی خبر دے رہے تھے تو میں سمجھی کہ وہ جبرائیل علیہ السلام ہی تھے۔ یا ایسے ہی الفاظ کہے۔ بیان کیا کہ میں نے ابوعثمان سے پوچھا کہ آپ نے یہ حدیث کس سے سنی؟ تو انہوں نے بتایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے سنی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 3634

حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شَيْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "رَأَيْتُ النَّاسَ مُجْتَمِعِينَ فِي صَعِيدٍ فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ فَنَزَعَ ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَيْنِ وَفِي بَعْضِ نَزْعِهِ ضَعْفٌ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ ثُمَّ أَخَذَهَا عُمَرُ فَاسْتَحَالَتْ بِيَدِهِ غَرْبًا فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِيًّا فِي النَّاسِ يَفْرِي فَرِيَّهُ حَتَّى ضَرَبَ النَّاسُ بِعَطَنٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ هَمَّامٌ :‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَعَ أَبُو بَكْرٍ ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَيْنِ.

مجھ سے عبدالرحمٰن بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مغیرہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے(خواب میں) دیکھا کہ لوگ ایک میدان میں جمع ہو رہے ہیں۔ ان میں سے ابوبکر رضی اللہ عنہ اٹھے اور ایک کنویں سے انہوں نے ایک یا دو ڈول پانی بھر کر نکالا، پانی نکالنے میں ان میں کچھ کمزوری معلوم ہوتی تھی اور اللہ ان کو بخشے۔ پھر وہ ڈول عمر رضی اللہ عنہ نے سنبھالا۔ ان کے ہاتھ میں جاتے ہی وہ ایک بڑا ڈول ہو گیا میں نے لوگوں میں ان جیسا شہ زور پہلوان اور بہادر انسان ان کی طرح کام کرنے والا نہیں دیکھا (انہوں نے اتنے ڈول کھینچے) کہ لوگ اپنے اونٹوں کو بھی پلا پلا کر ان کے ٹھکانوں میں لے گئے۔ اور ہمام نے بیان کیا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے بیان کر رہے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دو ڈول کھینچے۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ البقرہ میں ) یہ ارشاد کہ اہل کتاب اس رسول کو اس طرح پہچان رہے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور بیشک ان میں سے ایک فریق کے لوگ حق کو جانتے ہیں پھر بھی وہ اسے چھپاتے ہیں

حد یث نمبر - 3635

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا لَهُ أَنَّ رَجُلًا مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ نَفْضَحُهُمْ وَيُجْلَدُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ:‏‏‏‏ كَذَبْتُمْ إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ فَنَشَرُوهَا فَوَضَعَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ فَقَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ ارْفَعْ يَدَكَ فَرَفَعَ يَدَهُ فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ صَدَقَ يَا مُحَمَّدُ فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَأُ عَلَى الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ".

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک بن انس نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ یہود، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایا کہ ان کے یہاں ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ رجم کے بارے میں تورات میں کیا حکم ہے؟ وہ بولے یہ کہ ہم انہیں رسوا کریں اور انہیں کوڑے لگائے جائیں۔ اس پر عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگ جھوٹے ہو۔ تورات میں رجم کا حکم موجود ہے۔ تورات لاؤ۔ پھر یہودی تورات لائے اور اسے کھولا۔ لیکن رجم سے متعلق جو آیت تھی اسے ایک یہودی نے اپنے ہاتھ سے چھپا لیا اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی عبارت پڑھنے لگا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ذرا اپنا ہاتھ تو اٹھاؤ جب اس نے ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم موجود تھی۔ اب وہ سب کہنے لگے کہ اے محمد! عبداللہ بن سلام نے سچ کہا۔ بیشک تورات میں رجم کی آیت موجود ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان دونوں کو رجم کیا گیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے رجم کے وقت دیکھا۔ یہودی مرد اس عورت پر جھکا پڑتا تھا۔ اس کو پتھروں کی مار سے بچاتا تھا۔

مشرکین کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نشانی چاہنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ شق القمر دکھانا

حد یث نمبر - 3636

حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُجَاهِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شِقَّتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "اشْهَدُوا".

ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، انہیں ابن ابی نجیح نے، انہیں مجاہد نے، انہیں ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاند کے پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ لوگو اس پر گواہ رہنا۔

مشرکین کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نشانی چاہنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ شق القمر دکھانا

حد یث نمبر - 3637

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يُونُسُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏ح وقَالَ لِي خَلِيفَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ:‏‏‏‏ "أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً فَأَرَاهُمُ انْشِقَاقَ الْقَمَرِ".

مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن یزید نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مکہ والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ انہیں کوئی معجزہ دکھائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شق قمر کا معجزہ یعنی چاند کا پھٹ جانا ان کو دکھایا۔

مشرکین کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نشانی چاہنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ شق القمر دکھانا

حد یث نمبر - 3638

حَدَّثَنِي خَلَفُ بْنُ خَالِدٍ الْقُرَشِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا"أَنَّ الْقَمَرَ انْشَقَّ فِي زَمَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".

مجھ سے خلف بن خالد قرشی نے بیان کیا، کہا ہم سے بکر بن مضر نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عراق بن مالک نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن مسعود نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے۔

باب: ۔۔۔ 28

حد یث نمبر - 3639

بَاب حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ"أَنَّ رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَا مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ وَمَعَهُمَا مِثْلُ الْمِصْبَاحَيْنِ يُضِيئَانِ بَيْنَ أَيْدِيهِمَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا افْتَرَقَا صَارَ مَعَ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا وَاحِدٌ حَتَّى أَتَى أَهْلَهُ".

مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے معاذ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو صحابی (اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہما) اٹھ کر (اپنے گھر) واپس ہوئے۔ رات اندھیری تھی لیکن دو چراغ کی طرح کی کوئی چیز ان کے آگے روشنی کرتی جاتی تھیں۔ پھر جب یہ دونوں (راستے میں، اپنے اپنے گھر کی طرف جانے کے لیے) جدا ہوئے تو وہ چیز دونوں کے ساتھ الگ الگ ہو گئی اور اس طرح وہ اپنے گھر والوں کے پاس پہنچ گئے۔

باب: ۔۔۔ 28

حد یث نمبر - 3640

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا قَيْسٌ سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا يَزَالُ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ".

مجھ سے عبداللہ بن ابوالاسود نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ان سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے قیس نے بیان کیا کہ میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ ہمیشہ غالب رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت یا موت آئے گی اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے۔

باب: ۔۔۔ 28

حد یث نمبر - 3641

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "لَا يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللَّهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عُمَيْرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مَالِكُ بْنُيُ خَامِرَ :‏‏‏‏ قَالَ مُعَاذٌ وَهُمْ بِالشَّأْمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مُعَاوِيَةُ:‏‏‏‏ هَذَا مَالِكٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاذًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ وَهُمْ بِالشَّأْمِ.

ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید بن جابر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمیر بن ہانی نے بیان کیا اور انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو اللہ تعالیٰ کی شریعت پر قائم رہے گا، انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرنے والے اور اسی طرح ان کی مخالفت کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے، یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ اسی حالت پر ہیں گے۔ عمیر نے بیان کیا کہ اس پر مالک بن یخامر نے کہا کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ ہمارے زمانے میں یہ لوگ شام میں ہیں۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ دیکھو یہ مالک بن یخامر یہاں موجود ہیں، جو کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے معاذ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ یہ لوگ شام کے ملک میں ہیں۔

باب: ۔۔۔ 28

حد یث نمبر - 3642

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شَبِيبُ بْنُ غَرْقَدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ الْحَيَّ يُحَدِّثُونَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَعْطَاهُ دِينَارًا يَشْتَرِي لَهُ بِهِ شَاةً فَاشْتَرَى لَهُ بِهِ شَاتَيْنِ فَبَاعَ إِحْدَاهُمَا بِدِينَارٍ وَجَاءَهُ بِدِينَارٍ وَشَاةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَا لَهُ بِالْبَرَكَةِ فِي بَيْعِهِ وَكَانَ لَوِ اشْتَرَى التُّرَابَ لَرَبِحَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سُفْيَانُ :‏‏‏‏ كَانَ الْحَسَنُ بْنُ عُمَارَةَ جَاءَنَا بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعَهُ شَبِيبٌ مِنْ عُرْوَةَ فَأَتَيْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ شَبِيبٌ إِنِّي لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ الْحَيَّيُخْبِرُونَهُ عَنْهُ.

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، کہا ہم سے شبیب بن غرقدہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے قبیلہ کے لوگوں سے سنا تھا، وہ لوگ عروہ سے نقل کرتے تھے (جو ابوالجعد کے بیٹے اور صحابی تھے) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک دینار دیا کہ وہ اس کی ایک بکری خرید کر لے آئیں۔ انہوں نے اس دینار سے دو بکریاں خریدیں، پھر ایک بکری کو ایک دینار میں بیچ کر دینار بھی واپس کر دیا۔ اور بکری بھی پیش کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ان کی تجارت میں برکت کی دعا فرمائی۔ پھر تو ان کا یہ حال ہوا کہ اگر مٹی بھی خریدتے تو اس میں انہیں نفع ہو جاتا۔ سفیان نے کہا کہ حسن بن عمارہ نے ہمیں یہ حدیث پہنچائی تھی شبیب بن غرقدہ سے۔ حسن بن عمارہ نے کہا کہ شبیب نے یہ حدیث خود عروہ رضی اللہ عنہ سے سنی تھی۔ چنانچہ میں شبیب کی خدمت میں گیا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے یہ حدیث خود عروہ سے نہیں سنی تھی۔ البتہ میں نے اپنے قبیلہ کے لوگوں کو ان کے حوالے سے بیان کرتے سنا تھا۔

باب: ۔۔۔ 28

حد یث نمبر - 3643

وَلَكِنْ سَمِعْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ الْخَيْرُ مَعْقُودٌ بِنَوَاصِي الْخَيْلِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَقَدْ رَأَيْتُ فِي دَارِهِ سَبْعِينَ فَرَسًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ يَشْتَرِي لَهُ شَاةً كَأَنَّهَا أُضْحِيَّةٌ".

البتہ یہ دوسری حدیث خود میں نے عروہ رضی اللہ عنہ سے سنی ہے، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خیر اور بھلائی گھوڑوں کی پیشانی کے ساتھ قیامت تک کے لیے بندھی ہوئی ہے۔ شبیب نے کہا کہ میں نے عروہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں ستر گھوڑے دیکھے۔ سفیان نے کہا کہ عروہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بکری خریدی تھی۔ شاید وہ قربانی کے لیے ہو گی۔

باب: ۔۔۔ 28

حد یث نمبر - 3644

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "الْخَيْلُ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ نے بیان کیا، انہیں نافع نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گھوڑے کی پیشانی کے ساتھ خیر و برکت قیامت تک کے لیے باندھ دی گئی ہے۔

باب: ۔۔۔ 28

حد یث نمبر - 3645

حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسًا بْنَ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ".

ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح نے بیان کیا، اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ گھوڑے کی پیشانی کے ساتھ برکت باندھ دی گئی ہے۔

باب: ۔۔۔ 28

حد یث نمبر - 3646

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "الْخَيْلُ لِثَلَاثَةٍ لِرَجُلٍ أَجْرٌ وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ وَعَلَى رَجُلٍ وِزْرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا الَّذِي لَهُ أَجْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَطَالَ لَهَا فِي مَرْجٍ أَوْ رَوْضَةٍ وَمَا أَصَابَتْ فِي طِيَلِهَا مِنَ الْمَرْجِ أَوِ الرَّوْضَةِ كَانَتْ لَهُ حَسَنَاتٍ وَلَوْ أَنَّهَا قَطَعَتْ طِيَلَهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كَانَتْ أَرْوَاثُهَا حَسَنَاتٍ لَهُ وَلَوْ أَنَّهَا مَرَّتْ بِنَهَرٍ فَشَرِبَتْ وَلَمْ يُرِدْ أَنْ يَسْقِيَهَا كَانَ ذَلِكَ لَهُ حَسَنَاتٍ وَرَجُلٌ رَبَطَهَا تَغَنِّيًا وَسِتْرًا وَتَعَفُّفًا وَلَمْ يَنْسَ حَقَّ اللَّهِ فِي رِقَابِهَا وَظُهُورِهَا فَهِيَ لَهُ كَذَلِكَ سِتْرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ رَبَطَهَا فَخْرًا وَرِيَاءً وَنِوَاءً لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فَهِيَ وِزْرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحُمُرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهَا إِلَّا هَذِهِ الْآيَةُ الْجَامِعَةُ الْفَاذَّةُ"فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ‏‏‏‏ 7 ‏‏‏‏ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ"‏‏‏‏ 8 ‏‏‏‏ سورة الزلزلة آية 7-8".

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھوڑے تین آدمیوں کے لیے ہیں۔ ایک کے لیے تو وہ باعث ثواب ہیں اور ایک کے لیے وہ معاف یعنی مباح ہیں اور ایک کے لیے وہ وبال ہیں۔ جس کے لیے گھوڑا باعث ثواب ہے یہ وہ شخص ہے جو جہاد کے لیے اسے پالے اور چراگاہ یا باغ میں اس کی رسی کو (جس سے وہ بندھا ہوتا ہے) خوب دراز کر دے تو وہ اپنے اس طول و عرض میں جو کچھ بھی چرتا ہے وہ سب اس کے مالک کے لیے نیکیاں بن جاتی ہیں اور اگر کبھی وہ اپنی رسی تڑا کر دو چار قدم دوڑ لے تو اس کی لید بھی مالک کے لیے باعث ثواب بن جاتی ہے اور کبھی اگر وہ کسی نہر سے گزرتے ہوئے اس میں سے پانی پی لے اگرچہ مالک کے دل میں اسے پہلے سے پانی پلانے کا خیال بھی نہ تھا، پھر بھی گھوڑے کا پانی پینا اس کے لیے ثواب بن جاتا ہے۔ اور ایک وہ آدمی جو گھوڑے کو لوگوں کے سامنے اپنی حاجت، پردہ پوشی اور سوال سے بچے رہنے کی غرض سے پالے اور اللہ تعالیٰ کا جو حق اس کی گردن اور اس کی پیٹھ میں ہے اسے بھی وہ فراموش نہ کرے تو یہ گھوڑا اس کے لیے ایک طرح کا پردہ ہوتا ہے اور ایک شخص وہ ہے جو گھوڑے کو فخر اور دکھاوے اور اہل اسلام کی دشمنی میں پالے تو وہ اس کے لیے وبال جان ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گدھوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس جامع آیت کے سوا مجھ پر گدھوں کے بارے میں کچھ نازل نہیں ہوا «فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره * ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره‏» جو شخص ایک ذرہ کے برابر بھی نیکی کرے گا تو اس کا بھی وہ بدلہ پائے گا اور جو شخص ایک ذرہ کے برابر بھی برائی کرے گا تو وہ اس کا بھی بدلہ پائے گا۔

باب: ۔۔۔ 28

حد یث نمبر - 3647

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ صَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ بُكْرَةً وَقَدْ خَرَجُوا بِالْمَسَاحِي فَلَمَّا رَأَوْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ مُحَمَّدٌ وَالْخَمِيسُ وَأَحَالُوا إِلَى الْحِصْنِ يَسْعَوْنَ فَرَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ "اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ".

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں صبح سویرے ہی پہنچ گئے۔ خیبر کے یہودی اس وقت اپنے پھاوڑے لے کر (کھیتوں میں کام کرنے کے لیے) جا رہے تھے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور یہ کہتے ہوئے کہ محمد لشکر لے کر آ گئے، وہ قلعہ کی طرف بھاگے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھا کر فرمایا اللہ اکبر خیبر تو برباد ہوا کہ جب ہم کسی قوم کے میدان میں (جنگ کے لیے) اتر جاتے ہیں تو پھر ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہو جاتی ہے۔

باب: ۔۔۔ 28

حد یث نمبر - 3648

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الْفُدَيْكِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمَقْبُرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي سَمِعْتُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا فَأَنْسَاهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "ابْسُطْ رِدَاءَكَ فَبَسَطْتُ فَغَرَفَ بِيَدِهِ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ ضُمَّهُ فَضَمَمْتُهُ فَمَا نَسِيتُ حَدِيثًا بَعْدُ".

مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا مجھ سے محمد بن اسماعیل ابن ابی الفدیک نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمٰن ابن ابی ذئب نے، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے آپ سے بہت سی احادیث اب تک سنی ہیں لیکن میں انہیں بھول جاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی چادر پھیلاؤ، میں نے چادر پھیلا دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس میں ایک لپ بھر کر ڈال دی اور فرمایا کہ اسے اپنے بدن سے لگا لو۔ چنانچہ میں نے لگا لیا اور اس کے بعد کبھی کوئی حدیث نہیں بھولا۔